17 اکتوبر 2023 کو کھینچی گئی یہ تصویر بعد ازاں ورلڈ پریس فوٹو آف دی ائیر قرار پائی اور اسے پلٹزر ایوارڈ بھی ملا۔
07 اکتوبر ، 2024
غزہ کا ایک اسپتال اور کفن میں لپٹی ننھی لاش گود میں لیے غم سے نڈھال خاتون، یہ منظر غزہ میں جاری اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت کو دنیا کے سامنے لارہا تھا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی رائٹرز کے کیمرہ مین محمد سالم کے کیمرے سے 17 اکتوبر 2023 کو کھینچی گئی یہ تصویر بعد ازاں ورلڈ پریس فوٹو آف دی ائیر قرار پائی اور اسے پلٹزر ایوارڈ بھی ملا۔
اب رائٹرز کی جانب اس تصویر کی پیچھے کی دردناک کہانی بیان کی گئی ہے۔
تصویر میں نظر آنے والی خاتون ایناس ابو معمر ہیں جو اپنی 5 سالہ بھتیجی صالے کی کفن میں لپٹی لاش گود میں لیے بیٹھی ہیں۔
اسرائیلی بمباری میں صالے کی والدہ، چھوٹی بہن دادا، دادی، چچا، چچی اور 3 کزن بھی شہید ہوئے تھے، اس حملے کے بعد سے 37 سالہ ایناس ابو معمر اسرائیلی حملوں میں اپنی بہن اور ان کے 4 بچوں کو بھی کھو چکی ہیں۔
ایناس ابو معمر اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے 3 مرتبہ نقل مکانی کرچکی ہیں اور اس دوران انہیں تقریباً 4 ماہ ایک ٹینٹ میں بھی گزارنے پڑے۔
آج وہ دوبارہ خان یونس میں اپنے گھر میں موجود ہیں جس کی دیواروں پر پڑی دراڑیں چھت تک جاتی ہیں۔
ایناس نے کہا کہ ’اب ہم ہر طرح کی امید ہار چکے ہیں‘، یہ بات ایناس نے گھر کے ساتھ موجود قبرستان میں بکھرے ملبے پر بیٹھے ہوئی کہی، اسی ملبے کے نیچے کہیں ان کی بھتیجی صالے کی بھی قبر ہے۔
ایناس نے کہا ’اب تو قبر بھی محفوظ نہیں‘۔
ایناس اپنے شوہر کے ہمراہ اپنے بھائی رمیز کے گھر کے قریب ہی رہتی تھیں، اس وجہ سے ان کا اکثر وقت اپنی بھتیجی صالے ، اس کی بہن صبا اور ان کے بھائی احمد کے ساتھ گزرتا تھا۔
7 اکتوبر کے بعد جب غزہ پر بدترین اسرائیلی بمباری کا آغاز ہوا تو ایناس کے بھائی رمیز بمباری سے بچنے کے لیے اپنے سسرال منتقل ہوگئے لیکن اگلے ہی روز وہ مکان بھی بمباری کا شکار ہوگیا۔
جب ایناس کو اس حملے کی خبر ملی تو وہ فوری طور پر غزہ کے ناصر اسپتال پہنچیں وہاں انہیں اپنا بھتیجا احمد نظر آیا، وہ احمد کا ہاتھ تھام کر صالے کو تلاش کرنے لگیں جو انہیں اسپتال کے مردہ خانے میں ملی۔
ایناس نے بتا یا کہ ’میں نے اسے جگانے کی کوشش کی، مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اب زندہ نہیں ہے‘۔