Time 13 اکتوبر ، 2024
بلاگ

کاملا ہیرس کوجانیں کیسے؟ مایا ہیرس نے بتادیا

کاملا ہیرس کوجانیں کیسے؟ مایا ہیرس نے بتادیا
مایا ہیرس امریکا کی مختلف ریاستوں کا دورہ کررہی ہیں تاکہ اپنی بہن کی انتخابی مہم کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں— فوٹو:فائل

امریکا کی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کاملا ہیرس کی بہن اور مشیر مایا ہیرس نے جنوب ایشیائی کمیونٹی پر زور دیا ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں فعال کردار ادا کریں اور کاملا ہیرس کی جیت یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔

مایا ہیرس نے یہ بات کیلیفورنیا کے شہر بریڈبری میں فنڈ ریزنگ ڈنر سے خطاب میں کہی۔ تقریب پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود کی رہائش گاہ پر ہوئی جنہیں مایا ہیرس نے اپنے گھر کا فرد قراردیا۔

مایا ہیرس کی تقریر میں ان پالیسی نکات کا احاطہ کیا گیا جو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کاملا ہیرس کی انتخابی مہم کا مرکز ہیں اور ان میں امیگریشن، اسقاط حمل، مڈل کلاس امریکیوں کیلیے زیادہ سے زیادہ مواقع اور امیروں پر ٹیکس شامل ہے۔

مایا ہیرس امریکا کی مختلف ریاستوں کا دورہ کررہی ہیں تاکہ اپنی بہن کی انتخابی مہم کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ نائب صدر کی واحد زندہ خونی رشتہ دار ہونے کے ناطے ان سے زیادہ شاید کوئی بھی کاملا ہیرس کے بارے میں ووٹرز کو بہتر آگاہ نہیں کرسکتا۔

مایا ہیرس کا کہنا ہےکہ اگر کاملا کو جاننا ہے تو اسکے لیے شیاملا گوپالن کی زندگی میں جھانک کردیکھنا ہوگا۔ایک 19 برس کی لڑکی جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب سجائے 1958 میں اکیلی امریکا آئی۔ ایک ایسے دور میں جب اس قدر کم عمر لڑکیوں کو بھارت سے امریکا بھیجنا انتہائی غیرمعمولی تصور کیا جاتا تھا۔

شیاملا ہیرس بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر مدراس میں پیداہوئیں جسے اب چنئی کہا جاتا ہے۔ وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں پڑھنے آئی تھیں۔ پاکستانی اس یونیورسٹی کو یوں تو کئی حوالوں سے جانتے ہیں اوران میں سے ایک یہ بھی کہ شیاملا کے یہاں آنے سے تقریباً دس برس پہلے اسی یونیورسٹی سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گریجویشن کی تھی۔

شیاملا نے برکلے سے نیوٹریشن اور اینڈو کرائنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اوراسی یونیورسٹی میں چھاتی کے سرطان سے متعلق تحقیق سے وابستہ ہوگئیں۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دور ہی میں ایک مظاہرے کےدوران انکی ملاقات ڈونلڈ جے ہیرس سے ہوئی جن کا تعلق جمیکا سے تھا۔

شیاملا اور ہیرس کی تین برس کی دوستی اور محبت 1963 میں رشتے میں بدل گئی۔ کاملا اورمایا پیدا ہوئیں مگر شادی نبھ نہ سکی اور معاملہ انیس سو ستر کے اوائل ہی میں طلاق تک جاپہنچا۔اس وقت کاملا کی عمر صرف سات برسی تھی۔

امریکا میں ایک بار پھر تنہاہونے کے باوجود شیاملا نے اپنی دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، محنت، لگن اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آنتوں کے کینسر میں مبتلا شیاملا نے سن دوہزار نو میں ستر برس کی عمر میں انتقال سے پہلے دونوں بیٹیوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائض دیکھا۔

مایا نے اپنی والدہ کو ذکر کرتے ہوئےبارہا کہا ہے کہ جو سبق انہوں نے اپنی والدہ کی زندگی سے سیکھا وہ یہ کہ لوگوں کا پس منظر اور جدوجہد مختلف ہوسکتی ہے مگرجو چیز یکساں ہے وہ یہ کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کے فیصلوں میں آزاد ہو۔

اپنی بہن کے بارے میں بتاتے ہوئے مایا نے کہا کہ کاملا ایسی جمہوریت کی حامی ہیں جس میں سب کو مواقع ملیں۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ آپ کا رنگ کیا ہے، تعلق کس علاقے سے ہے، زبان اور لہجہ کیسا ہے یا مذہب کیا ہے۔

مایا ہیرس نے کہا کہ کاملا کے نزدیک اختلافات کمزوری نہیں، طاقت کی علامت ہیں اور امریکا کی ترقی مڈل کلاس کو مضبوط کرنے میں ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امیروں پر ٹیکس لگاکر مڈل کلاس کو ہدف بنانا چاہتے ہیں۔

مایا ہیرس نے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے بھی خطاب کیا تھا جس میں مایا نے کہا کہ تھا کہ ان کے گھر کی کہانی پکی امریکن اسٹوری ہے۔ کاملا اس بات سے واقف ہیں کہ لوگوں کو نظرانداز کیا جانا کتنا تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہیں۔

اسی مؤقف نے انتخابی مہم میں نئی روح پھونکی ہے، مومینٹم بڑھ رہا ہے مگر کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہیے کیونکہ انتہائی کانٹے کا مقابلہ ہے۔ ٹرمپ لوگوں کو ماضی میں دھکیلنا چاہتے ہیں مگر کاملا کہتی ہیں کہ ہم پیچھے جانیوالے نہیں۔

مایا ہیرس امریکا کی سابق صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی مشیر رہی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اگر کاملا ہیرس صدر بنیں تو وہ اپنی بہن کو اہم عہدے پر فائض کریں گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔