13 اکتوبر ، 2024
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ ٹھیک پچیس سال پہلے جب مشرف نے آئین معطل کیا اور مارشل لاء لگاکر منتخب وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا تو ساری جمہور پسند قوتوں کی نظریں عدلیہ کی جانب اٹھ گئیں۔
چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کیا تو امید کی ایک کرن جاگی لیکن انھیں گھر میں نظر بند کردیا گیا اور جسٹس ارشاد حسن خان نے خدمات پیش کرتے ہوئے چیف ججی کا حلف پی سی او کے طوق کے ساتھ گلے میں لٹکا لیا۔
اسی پر بس نہیں کہ مشرف کو آئین معطل کرکے آئین سے ماوراء چیف ایگزیکٹو مان لیا بلکہ تین سال کا حق حکمرانی بھی ۱۲ ججز کی معاونت و ملی بھگت سے عطا کردیا گیا۔ جس کی آئین میں کوئی گنجانش نہ تھی۔
مگر اس وقت آئین تھا کہاں ایک موم کی گڑیا تھی جس کی ناک مروڑنے کا اختیار مشرف کو سونپ دیا گیا تھا۔
یہ نظریہ ضرورت کا پہلا ماورائے آئین استعمال نہ تھا۔۔ نہ ہی آخری۔۔
جن لوگوں کا اعتراض ہے کہ قائد اعظم کی اتنی پرانی بات بلاول کو اب کیوں یاد آئی ان کے نانا کوکیوں یاد نہ آئی تو عرض یہ ہے کہ جب بلاول کے نانا نے آئین بنایا تو انھیں پتہ نہیں تھا کہ آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے ہی آئین معطل کرنے پر رضا مندی کی مہر ثبت کریں گے۔ تخت الٹانے کے ماورائے آئین طریقے ایجاد کرلیں گے۔ تشریح کے نام پر آئین تبدیل کریں گے۔
پھر ایک ستون نے عملاً آئین اور آئین ساز ادارے کو ماتحت بنا کر رکھ دیا۔ اور دیگر دو ستونون کو عملاً جزو معطل بنادیا۔ تب قائد اعظم کا دیا ہوا حل ہی بہتر حل لگا۔
جیسے اسٹئبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا خاتمہ ضروری ہے ایسے ہی عدلیہ کی سیاست اور آئین میں دراندازی کا راستہ بند کرنا ضروری ہے۔
آئینی عدالت اسی کا حل ہے۔ شاید یہ سب سے بہترین حل نہ ہو مگر آئین کی منشاء جو ریاست کے تین ستونوں میں توازن اور ہم آہنگی کی متقاضی ہے اس منشاء کوپورا کرنے اور عدلیہ کا دیگر دوستونوں کو مسلسل زیر نگیں رکھنے کے مسئلے کے حل کی ابتدا ضرور ہے۔ اس طرف بڑھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔