Time 13 اکتوبر ، 2024
صحت و سائنس

گٹھیا سے بچاؤ کیلئے بہترین غذائیں کون سی ہیں؟

گٹھیا سے بچاؤ کیلئے بہترین غذائیں کون سی ہیں؟
اس مرض میں مبتلا افراد کو جوڑوں میں درد کے ساتھ ساتھ سوزش کی بھی شکایت ہوتی ہے/ فائل فوٹو

گٹھیا کو جوڑوں کا درد کہا جاتا ہے جو اب اس جدید دور میں ضعیف افراد کے ساتھ ساتھ جوانوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔

اس مرض میں مبتلا افراد کو جوڑوں میں درد کے ساتھ ساتھ سوزش کی بھی شکایت ہوتی ہے۔

گٹھیا کیا ہے؟

گٹھیا اکثر جوڑوں میں شدید درد اور اکڑن کے ساتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔

اس درد میں مبتلا افراد کو زمین پر چلنے اور بیٹھنے جیسے بنیادی کاموں میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس مرض سے کیسے نمٹا جائے؟

ویسے تو اس کا طبی علاج ضروری ہے لیکن کھانے پینے کا خیال رکھ کر بھی اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

مندرجہ ذیل کھانوں کو اپنی خوراک میں شامل کرکے اس تکلیف سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

ہرے پتوں والی سبزیاں

ہرے پتوں والی سبزیوں  میں پالک، میتھی اور ساگ سمیت دیگر سبزیاں بھی شامل ہیں جس میں قدرت نے وٹامنز، منرلز اور اینٹی آکسیڈینٹ  کی بھرپور مقدار رکھی ہے۔

اس کے علاوہ ان ہرے پتوں والی سبزیوں میں 'وٹامن کے' کی وافر مقدار ہوتی ہے جو سوزش کو کم کرکے جوڑوں کو تکلیف سے بچاتی ہیں۔

مچھلی

مچھلی اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کا خزانہ ہے اور یہ بھی سوزش سے لڑنے کا ہنر رکھتی ہے جبکہ اومیگا تھری جوڑوں کے درد اور اکڑن کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

اگر مچھلی کو باقاعدگی سے اپنی خوراک میں شامل کیا جائے تو یہ آپ کے دل کو مضبوط بنا کر جسمانی صحت کا بھی خیال رکھ سکتی ہے۔

بیریز

بیریز میں اسٹرابیری، بلیو بیری، جامن، شہتوت اور دیگر بیریز شامل ہیں جو اینٹی آکسیڈینٹ اور وٹامنز کی وجہ سے سوزش کو ختم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔

ڈرائی فروٹس

گری دار میوے اور بیج جیسے اخروٹ، بادام اور السی کے بیج میں صحت مند چکنائی، پروٹین اور ضروری غذائی اجزاء ہوتے ہیں۔

خاص طور پر اخروٹ میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جب کہ السی کے بیج lignans اور فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں۔

 یہ غذائی اجزاء سوزش کو کم کرنے اور جوڑوں کو صحت مند رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

گرین ٹی

گرین ٹی یعنی سبز چائے کے صحت پر بے شمار فوائد ہیں جبکہ یہ گٹھیا کے درد سے بھی نجات حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :