Time 22 اکتوبر ، 2024
پاکستان

فیصلے میں بنیادی چیزوں کو نظر انداز کیا گیا، مخصوص نشستوں کے کیس کا اقلیتی فیصلہ جاری

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں دوججز کا اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اورجسٹس جمال خان مندوخیل نے اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کیا جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی فیصلے میں اضافی نوٹ بھی لکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 14صفحات پرمشتمل اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی تحریری حکم میں لکھاکہ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اورکوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے اور توقع ہے اکثریتی ججزاپنی غلطیوں پرغورکرکے درست کریں گے، پاکستان کا آئین تحریری ہے اورآسان زبان میں ہے لہٰذا امید کرتا ہوں اکثریتی ججزاپنی غلطیوں کی تصیح کریں گے۔

اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بردارججزیقینی بنائیں گےکہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے، بدقسمتی سے اکثریتی مختصرفیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت نہیں ہوسکی اور سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکی۔

چیف جسٹس نے اقلیتی فیصلے میں لکھاکہ کمیٹی اجلاس میں جسٹس منیب اور جسٹس منصور نے نظرثانی مقررنہ کرنے کا مؤقف اپنایا، امید کرتا اکثریتی فیصلہ دینے والے اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے، مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست تعطیلات کے بعد مقررکرنے کا کہا گیا۔

چیف جسٹس نے اقلیتی فیصلے میں کہا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارا آئین آسان فہم ہے، اکثریتی فیصلہ میں کیس کی بنیادی چیزوں کو نظر انداز کیا گیا، ملک کا نظام عوام کے منتخب نمائندے چلاتے ہیں، ججزکو ذاتی ترجیحات کے بجائے طے شدہ رولزکو مدنظررکھنا چاہیے، ہمیں وہ کرنا چاہیے جو ہمارا آئین کہتا ہے۔

اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوٹ کے متن کے مطابق ہم نے 80 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا جائزہ لیا جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیارکی، 41 امیدواروں نے واضح طورپرخود کو آزاد امیدوار قراردیا، شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی تاریخ 20 دسمبر2023 سے24 دسمبر 2023 تک تھی، کسی بھی امیدواریا پی ٹی آئی کی قیادت نے دعویٰ نہیں کیا کہ آزاد امیدوارپارٹی امیدوار تھے اور نہ ہی ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں جوظاہرکرے کہ ان41 امیدواروں کو آزاد امیدواربننے پر مجبورکیا گیا۔

اقلیتی فیصلے کے متن کے مطابق ریکارڈ پر نہیں ان 41 امیدواروں پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا،  ان حالات میں کوئی وجہ نہیں کہ ان 41 افراد کو پی ٹی آئی کا نامزد امیدوارسمجھا جائے، ججزمقدمات کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق، دستیاب مواد کی بنیاد پرکرتے ہیں، اس طرح کے کسی بھی دعوے کی حمایت ریکارڈ سے ہونی چاہیے جواس معاملے میں موجود نہیں، یہ 41 امیدوار آزاد ہی تھے۔

اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معزز اکثریتی اراکین نے 41 آزاد امیدواروں کو یہ اختیاردیا کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوسکتے ہیں، انتہائی احترام کیساتھ، ہم اکثریتی اراکین کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے، ہم اتفاق نہیں کرتے کہ 41 آزاد امیدواروں کو موقع فراہم کیا جائے، ان اراکین نے پہلے ہی اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے سنی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور وہ اب 41 اراکین سنی اتحاد کے رکن ہیں، نہ آئین نہ ہی ایکٹ ہمیں یہ اختیاردیتا ہےکہ ہم انہیں کسی اورسیاسی جماعت میں شمولیت کی ہدایت دیں۔

اختلافی فیصلے کے متن کے مطابق آئین وقانون اجازت نہیں دیتا کہ انہیں کسی اورسیاسی جماعت میں شمولیت کا15 دن کا موقع یا اضافی راستہ دیں۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا تھا۔

13 رکنی فل کورٹ بینچ کے 5-8 کی اکثریت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے، انتخابی نشان نہ ملنے سے کسی سیاسی جماعت کا انتخابات میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی 15 دن میں مخصوص نشستوں کیلئے اپنی فہرست جمع کرائے، 80 میں سے 39 ایم این ایز پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کر چکے ہیں، باقی 41 ارکان 15 دن میں پارٹی وابستگی کا حلف نامہ دیں۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ن لیگ اور ارکان اسمبلی نے نظرثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 2 بار اپنے فیصلے کی وضاحت جاری کی۔



مزید خبریں :