Time 26 اکتوبر ، 2024
بلاگ

پاک ہند تعلقات اور نواز شریف

پاکستان اور ہندوستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے اپنے خطوں میں بیٹھے حسب استطاعت بارڈر کے اس پار پھول یا بارود برساتے رہتے ہیں۔ لمبی چوڑی چھوڑنے والوں کی بھی کمی نہیں لیکن اگر آپ دونوں اطراف ہر دو خطوں پر ریسرچ کرنے والوں کی تلاش کریں تو آپ کو سخت مایوسی ہو گی، شاید ہمارے یہاں مغرب کی طرح اس نوع کا ٹرینڈ ہی نہیں۔ 

‎ایس سی او کانفرنس میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے ساتھ کچھ بھارتی صحافی بھی پاکستان آئے جن کی خواہش پر لاہور میں انکی نواز شریف کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا گیا نواز شریف نے ان سے جو گفتگو کی اس پر کئی صحافیوں کو کچھ حیرت بھی ہوئی جس کا اظہار انہوں نے انڈیا واپس پہنچ کر اپنی رپورٹس میں کیا مثلاً یہ کہ تین مرتبہ منتخب ہونے والے پردھان منتری نواز شریف نے مودی کی تعریف کی اور سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے مودی کے متعلق جو منفی باتیں کی تھیں ان پر نواز شریف نےکہا کہ انہیں ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا، اس سے پاکستان اور انڈیا کے بگڑے تعلقات میں سدھار کی بجائے مزید خرابی آئی، دونوں ملکوں اور پڑوسیوں کے لیڈروں کو ایک دوسرے کے متعلق بات کرتے ہوئے سوچ سمجھ کر بہتر الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے۔

 انڈین صحافیوں کی رپورٹس کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ انڈین وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اچھی شروعات ہے ہم نے پچھلے75 برس کھودیے ہیں اب ہمیں اگلے 75برسوں کے متعلق سوچنا چاہیے پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے اس لیے ہمیں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہیے دونوں اطراف اگرچہ گلے شکوے ہیں لیکن ہمیں ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنا ہو گا، اگر پرائم منسٹر مودی خود پاکستان تشریف لاتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ 

نریندر مودی کے دورہ لاہور سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ وہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا وہ چاہیں گے کہ مودی باضابطہ طور پر دوبارہ پاکستان کا دورہ کریں اور ہم نے دھاگے کو جہاں چھوڑا تھا اس کا سرا وہیں سے اٹھائیں، میں نے تو تعلقات ٹھیک کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن اس میں بار بار خلل آجاتا رہا۔

 نواز شریف نے 1999ء میں واجپائی کی لاہور یاترا کا بڑے احترام سے تذکرہ کیا جنکے واپس لوٹتے ہی یہاں کارگل ہو گیا تھا، اس موقع پر اپنے والد کے ساتھ بیٹھی چیف منسٹر پنجاب مریم نواز نےخواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی بھارت کا دورہ کرنا چاہتی ہوں خصوصاً بھارتی پنجاب کا، جس پر نواز شریف نے کہا صرف پنجاب ہی کیوں آپ ہماچل، ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی جائیں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے، تجارت سرمایہ کاری، صنعت و سیاحت جیسے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے کافی امکانات ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ پرجوش خواہش رکھتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی کیلئے بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان آئے کئی انڈین صحافیوں کو نواز شریف کی یہ باتیں سن کر حیرت بھی ہوئی کیونکہ ان میں سے بیشتر پاکستانی سیاست کو نہیں جانتے انہیں نہیں معلوم کہ نواز شریف نے اپنی اسی صلح جوئی کی سوچ پر بارہا کتنی بھاری قیمت چکائی۔

 اس ملاقات میں جب ایک صحافی نے کشمیر میں 370کے حوالے سے سوال کرنا چاہا تو نواز شریف نے اشارہ کرتے ہوئے اسے منع کیا اور کہا کہ ان مسائل پر بات کرنے کا یہ موقع نہیں ہے اس کیلئے حکمت اور طریقے سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس وقت دو طرفہ تعلقات نچلی سطح پر ہیں تاہم یہ خوش کن امر ہے کہ ایس سی او میں جے شنکر کے آنے سے ہلکی سی بہتری کے آثار ابھرے ہیں جیسے کہ بھارت نے کہا ہے کہ وہ عالمی تنظیم برکس میں شمولیت کیلئے پاکستان کی حمایت کرے گا۔

واضح رہے کہ اگر کوئی ایک رکن مخالفت کر دے تو یہ ممبرشپ نہیں مل سکتی پاکستان نے عرصہ دراز سے اس میں شمولیت کی درخواست دے رکھی ہے۔ درویش کے کانوں میں انڈین ڈیفنس منسٹر راج ناتھ سنگھ کے وہ الفاظ گونج رہے ہیں جو انہوں نے بانڈی پورہ کے کشمیری انتخابی حلقے میں پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے ادا کیے کہ اگر آپ اچھے ہمسائے بن کر اچھے تعلقات قائم کریں تو انڈیا آپ کو آئی ایم ایف سے طلب کردہ پیکیج سے کہیں زیادہ بڑا مالیاتی امدادی پیکیج فراہم کر سکتا ہے جس سے آپ کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ رہے، راج ناتھ سنگھ نے مزید کہا کہ میں اپنے تمام پاکستانی دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھ کر آپ لوگوں کو کیا مل رہا ہے؟

 آئیے ہم بھائیوں کی طرح مل کر اچھی ہمسائیگی کے ساتھ آگے بڑھیں افسوس ہمارے میڈیا میں ان احساسات کو بھی منفی اسلوب میں پیش کیا گیا حالانکہ سچائی یہ ہےکہ انڈیا کے پہلے پرائم منسٹر پنڈت نہرو کہا کرتے تھے کہ میں پاکستان کو کوئی غیر ملک نہیں سمجھتا، اس سے دشمنی کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے یہ تو میرے وجود کا حصہ ہے۔

 انڈین گریٹ آرٹسٹ دلیپ کمار کہا کرتے تھے کہ تقسیم تو سیاست دانوں کی بنائی ہوئی سیاسی لکیر ہے میں دونوں کو الگ الگ ممالک نہیں سمجھتا یہ تو ہماری ایک ہی دھرتی ہے۔

 مودی کہتے ہیں کہ ہمیں مسابقت اسلحے بارود میں نہیں، غریبی مٹانے میں کرنی چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سیاستدانوں میں پاک بھارت دوستی امن اور بھائی چارے کیلئے نواز شریف کی خدمات سب سے بڑھ کر ہیں انڈین پترکاروں کو کیا معلوم نواز شریف کو کئی مرتبہ اس انسان نواز اپروچ کی کتنی بھاری قیمت چکانا پڑی مگر پھر بھی وہ سلامتی کی اس راہ پر گامزن ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔