Time 29 اکتوبر ، 2024
بلاگ

کملا ہیرس، وکیل سے صدارتی امیدوار بننے کا سفر

کملا ہیرس، وکیل سے صدارتی امیدوار بننے کا سفر
پارٹی میں بڑھتی تقسیم کا حل کملا ہیرس کی نامزدگی کی صورت میں نکالا گیا— فوٹو:فائل

امریکا کی ریاست کیلی فورنیا میں جس شام نائب صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی فنڈ ریزنگ میں مجھے شرکت کا موقع ملا، دنیا میں شاید ہی کسی کے ذہن میں ہو کہ انڈین اور جمیکن امریکن پس منظر سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون صدارتی الیکشن لڑے گی۔

یہ فنڈریزنگ ڈنر جو بائیڈن اورڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان صدارتی مباحثے سے ایک روز پہلے ہوا تھا۔ پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود کے بریڈبری مینشن میں منعقد اس تقریب میں یہ ضرور ہے کہ موجود زیادہ ترافراد فکر مند تھے کہ شاید بائیڈن اچھا پرفارم نہ کرسکیں۔

اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جملے کسنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے مباحثے میں کیا بھی یہی ایک موقع پر بولے کہ بائیڈن جو کہہ رہےہیں، شاید انہیں خود بھی معلوم نہیں۔ 

اس طرح وہ بائیڈن کا تاثر بھلکڑ اور حواس باختہ شخص کے طور پر ابھارنے میں کامیاب رہے۔ دوسرا یہ کہ چاربرس اقتدار سے باہر رہ کر ڈونلڈ ٹرمپ اب تجربہ کار اپوزیشن لیڈربھی بن چکے ہیں اس لیے انہیں مباحثہ ہرانا مشکل ہوگا۔

ہوا بھی کچھ ایسا ہی، ایونٹ ختم ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد کراچی کیلئے پرواز کرتے ہوئے جہاز میں جوں جوں میں مباحثہ کی اپ ڈیٹ دیکھتا رہا، فنڈ ریزنگ ڈنر میں موجود شخصیات کے خدشات درست ہوتے چلے گئے۔ 

طیارہ لینڈ ہونے سے پہلے ہی جوبائیڈن کیخلاف فضا بنائی جاچکی تھی۔ اب امکان تھا کہ کملا ہیرس ممکنہ صدارتی امیدوار ہوں گی۔

سوال یہ تھا کہ آیا غیرسفید فام کملا ہیرس اپنے اس ری پبلکن حریف کو ہرا پائیں گی جس پر امریکا میں نسل پرستی بڑھانے کاالزام ہے؟ اس طبقے کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام خاتون اول اور سابق وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کو سن دوہزار سولہ میں ہراچکے ہیں تو کملا ہیرس تو ان کے لیے ترنوالہ ثابت ہوں گی۔

امریکا کے سابق صدر بارک اوباما تو سرعام یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ابھی تک انہوں نے کملا ہیرس کی انتخابی مہم میں وہ جان ہی نہیں دیکھی جو بطور سیاہ فام صدارتی امیدوار خود انکے دور میں تھی۔ اوباما کے نزدیک بہت سے ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ مرد طاقت کی علامت ہوتا ہے اس لیے یا تو کملا کو ووٹ ہی نہ دیں یا ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب بنایا جائے۔

کملا ہیرس، وکیل سے صدارتی امیدوار بننے کا سفر
کملا ہیرس کا ماضی ابھرتی ہوئی مڈکل کلاس فیملیز کودرپیش چیلنجز کا عکاس ہے— فوٹو:فائل

اسی لیے ایک حلقے کا خیال یہ بھی تھا کہ کملا ہیرس کی جگہ ایسی مرد شخصیت سامنے لائی جائے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دے سکے، کچہ چٹھہ سامنے لانے میں دبنگ ہو اور اسکا ثابت شدہ ریکارڈ بھی ہو، امریکی ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شف سمیت مختلف شخصیات کا نام اس لیے ڈیموکریٹک حلقوں میں گردش کرتا رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہر جلسے میں یہ پوچھتے رہے کہ ابھی تک انہیں یہی نہیں پتہ کہ ڈیموکریٹک حریف ہوگا کون؟ اس صورتحال نے ڈیموکریٹس کو مزید بد دل کیا۔

پارٹی میں بڑھتی تقسیم کا حل کملا ہیرس کی نامزدگی کی صورت میں نکالا گیا۔ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکردہ رہنما سرجوڑ کر بیٹھے، کملا کے مخالفین کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا اور پھر ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن سے پہلے تمام ڈیموکریٹ ڈیلی گیٹس سے ای میل پر رائے لی گئی کہ ان کے نزدیک صدارتی امیدوار کسے بنایا جائے؟ قرعہ فال کملا ہیرس ہی کے نام نکلا۔ 

ویسے بھی بطور نائب صدر انہی کا پہلا حق تھا۔

یوں کملا ہیرس پرائمریز اور کاکس کے روایتی طریقہ انتخاب کا حصہ بنائے بغیر صدارتی امیدوار نامزد کردی گئیں۔ شاید اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران اکثرطنزیہ انداز میں یہ کہتے ہیں کہ کملا ہیرس نے جوبائیڈن کی کمر میں چھرا گھونپا، کملا ہیرس سے زیادہ جو بائیڈن اگر کسی شخص کو پسند کرتے ہیں تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے اور یہ بھی کہ جمہوریت کی دعویدار ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا صدارتی امیدوار غیر جمہوری انداز سے منتخب کیا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ کملا ہیرس نے انتخابی مہم سنبھالتے ہی پارٹی کی الیکشن مہم میں نئی روح پھونکی ہے۔ معیشت، صحت، اسقاط حمل، امیگریشن جیسے بنیادی ایشوز پر توجہ مرکوز کرکے انہوں نے مڈل کلاس، خواتین اور طلبہ کی توجہ اپنی جانب مبزول کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کیلئے وہ بطور نائب صدر اقدامات سے زیادہ ماضی کی مثالیں دیتی نظر آتی ہیں۔

کملا ہیرس کا ماضی ابھرتی ہوئی مڈکل کلاس فیملیز کودرپیش چیلنجز کا عکاس ہے۔ کملا ہیرس نے 1964 میں کیلی فورنیا کے شہر اوکلینڈ میں آنکھ کھولی۔ ان کی والدہ شیاملا گوپالن 19 برس کی عمر میں بھارت کی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے تنہا کیلی فورنیا آئی تھیں، شیاملا نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور بریسٹ کینسر کی تحقیق سے نام کمایا۔

24 برس کی شیاملا کی ملاقات یونیورسٹی ہی میں لیکچر کے دوران ایک جوشیلے مقرر ڈونلد جے ہیرس سے ہوئی۔ ایک برس دوستی رہی جو انیس سو تریسٹھ میں رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔

شادی کے دو برس بعد کملا ہیرس پیدا ہوئیں اور پھردوسری بیٹی مایا تاہم اس عرصے میں والدین میں نااتفاقیاں بڑھتی گئیں اور ابھی کملا کی عمر پانچ برس ہی تھی کہ انیس سو انہتر میں والدین علیحدہ ہوگئے۔ بچیوں کی حوالگی کیلئے مقدمہ بازی چلی اور بلآخر انیس سو بہتر میں طلاق ہوگئی۔ ماں بچیوں کو واپس کیلی فورنیا لے آئی اورتمام ترتوجہ بیٹیوں کی تعلیم پر صرف کی۔

اس دوران کملا ہیرس نے کئی پرائمری اورپھر سیکنڈری اسکول میں تعلیم کے بعد انیس سو اکیاسی میں گریجویشن کی۔ اس عرصے میں وہ مختصر عرصے کیلئے کینیڈا میں بھی رہیں۔ امریکا واپسی پر ہوورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ہیسٹینگز کالج آف لا سے ڈگری لی اور وکالت کا پیشہ اختیار کرلیا۔

بطور وکیل کملا ہیرس کی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز انیس سونوے میں اس وقت ہوا جب انہوں نے الامیدا کاؤنٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس میں کام شروع کیا اور جنسی زیادتی کا شکار بچوں کے کیسز مدلل انداز سے لڑے۔ یہ کیسز اس لیے بھی ان کے دل کے قریب تھے کہ کینیڈا میں جنسی درندے کا نشانہ بنی اسکول کی سہیلی کو وہ بچپن میں ساتھ رکھنے کیلئے گھر لے آئی تھیں۔

ملکی سطح پر ابھرنے سے پہلے کملا ہیرس نے کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے طور پر اپنی حیثیت منوائی۔ انہوں نے یہ منصب سن دوہزار چار میں سنبھالا۔ امریکا کی اس سب سے بڑی ریاست میں سن دوہزار دس میں وہ اٹارنی جنرل کی حیثیت سے سامنے آئیں تو انکا مستقبل ابھرتا نظرآنے لگا۔

سن دوہزار سترہ میں وہ امریکی سینیٹ کی رکن منتخب کرلی گئیں۔ وہ جوڈیشری کمیٹی کا حصہ بنیں جہاں انہوں نے ٹرمپ کے نامزد کردہ اٹارنی جنرل جیف سیشنزاور سپریم کورٹ جج بریٹ کاواناگھ کو اپنے تندو تیز چھبتے سوالوں سے زچ کردیا۔

ابھی قسمت کو انہیں کہیں آگے لےجانا تھا۔ سن دوہزار بیس میں انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کا الیکشن لڑا مگر آخر میں جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہوگئیں کیونکہ وہ کملا کو نائب صدر بنانے پر آمادگی ہوگئے تھے۔ بیس جنوری سن دوہزار اکیس کو وہ دن بھی آیا جب کملا ہیرس نے امریکا کی نائب صدر کے طورپر عہدے کا حلف لیا۔ اس طرح وہ بطور خاتون، سیاہ فام اور جنوب ایشیائی امریکی کی حیثیت سے پہلی شخصیت ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئیں۔

ایک دوست نے ان کی ملاقات وکیل ڈوگلس ایمہوف سے کرائی تھی جو ایک برس بعد یعنی سن دوہزار چودہ میں رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔ عقیدے کے لحاظ سے کملا ہیرس مسیحی اور ان کے شوہر یہودی ہیں۔ کملا کی اپنی اولاد تو نہیں تاہم پہلی بیوی سے ایمہوف کے دو بچے ایلا اور کول ہیں۔ یہ بچے کملا اورایمہوف کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

کملا ہیرس، وکیل سے صدارتی امیدوار بننے کا سفر
کملا کی اپنی اولاد تو نہیں تاہم پہلی بیوی سے ایمہوف کے دو بچے ایلا اور کول ہیں— فوٹو:فائل

کملا ہیرس کی میڈیکل سائنسدان والدہ کا انتقال سن دوہزار نو میں ہوچکا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ محبت کے دعویدار شوہر ڈونلڈ ہیرس نے بیوی کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہ کی۔ دعوت نامہ ملنے کے باوجود کملا ہیرس کی شادی میں آکر بیٹی کو رخصت کرنا بھی والد نے گوارا نہ کیا۔ ہاں باپ بیٹی کی ایک ملاقات سن دوہزار سولہ میں ضرور ہوئی جب کملا ہیرس سینیٹر بن چکی تھیں۔

ماں کے ہاتھوں پرورش پانیوالی کملا ہیرس اپنے والد کا شاذ و نادر ہی ذکر کرتی ہیں اور وہ بھی بچپن کی ایک یا دو یادوں تک محدود رہتا ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ چھیاسی برس کے پروفیسر ڈونلڈ جے ہیرس وائٹ ہاؤس سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر دوسری بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔

 وہ کسی حد تک بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے معیشت دان ہیں جو اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ ڈونلڈ جیسپر ہیرس جمیکا میں پیدا ہوئے تھے، آبائی وطن کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیا اور امریکا میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔

جہاں تک خونی رشتوں کا تعلق ہے تو کملا ہیرس کی اکلوتی بہن مایا ہیرس ہی اب حیات ہیں۔ مایا اپنی بہن کی مشیر ہیں اور انتخابی مہم بھی چلارہی ہیں۔ مایا ہیرس اس سے پہلے بل کلنٹن اور ہلیری کلنٹن کی بھی مشیر رہ چکی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ انڈین جمیکن پس منظر رکھنے والی کملا ہیرس کیا امریکا کی صدر بن کر تاریخ رقم کرپائیں گی؟ جواب کچھ بھی ہو، وہ یہ الیکشن لڑ کر ہی تاریخ رقم کرچکی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔