29 اکتوبر ، 2024
امریکا کے ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کے ساتھ اگر کوئی چیز ذہن میں آتی ہے تو وہ نیلےسوٹ میں ان کی سرخ ٹائی، مخصوص انداز سے سنوارے گئے بال، ٹرمپ ٹاور، اپنے دور صدارت میں نئی جنگ نہ چھیڑنا، اپوزیشن کے خلاف دھیمے انداز میں ادا زہر میں بجھے جملے اور کیپیٹل ہل پر 6 جنوری کو حملہ۔
ڈونلڈ ٹرمپ اب دوبارہ صدارت کے امیدوار ہیں۔ آخر ٹرمپ میں ایسی کیا خوبی ہے کہ ان کے خلاف جس قدر پراپیگنڈہ کیا گیا، وہ اُسی تیزی سے ابھرے اور پارٹی کی قد آور شخصیات کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا؟ یہی نہیں زیادہ تر سروے ظاہر کر رہے ہیں کہ الیکشن میں اس بار ماضی سے کہیں زیادہ سخت مقابلہ ہوگا۔ بعید نہیں کہ وہ صدارتی انتخاب جیت بھی لیں۔
چار برس پہلے جو بائیڈن نے جب ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی تھی تو بظاہر ری پبلکن لیڈر کا سیاسی کیریئر ختم ہوتا نظر آتا تھا، انہیں ایک کے بعد دوسرے مقدمے کا سامنا ہوا۔ ہر پیشی پر لگتا تھا کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کا مستقبل وائٹ ہاؤس نہیں، جیل ہوگا مگر انہوں نے ایسے تاخیری حربے اختیار کیے کہ کسی بھی مقدمے میں پیشرفت صدارتی الیکشن کے نتائج سے پہلے ممکن ہی نہیں۔
ٹرمپ دوبارہ صدر بنے اور مقدمے چلے بھی تب بھی ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں کہ وہ خود کو معافی دے کر سزا سے بچ جائیں گے۔
13 جولائی کو ان پر پنسلوینیا کے شہر بٹلر میں ریلی کےدوران 20 برس کے سفید فام نے قاتلانہ حملہ کیا، تھامس میتھیو کروکس کی چلائی گئی مبینہ 8 گولیوں میں سے ایک ڈونلڈ ٹرمپ کے دائیں کان کو چھوتی ہوئی گزرگئی۔ وہ بال بال بچے،ملزم کو موقع پر ہی مار ڈالا گیا مگر یہ ناکام قاتلانہ حملہ ان کے لیے ہمدردوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بنا۔
ڈیموکریٹس نے لاکھ کوشش کی کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ حملہ اس گن کلچر کا نتیجہ تھا جس کے ڈونلڈ ٹرمپ حامی ہیں مگر زخمی ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حامیوں کو معنی خیزانداز میں یہ منوانے میں کامیاب رہے کہ اُن لوگوں کا نشانہ عوام ہیں، ٹرمپ تو محض راستے کی رکاوٹ ہے۔
چند ہی روز بعد ری پبلکن نیشنل کنونشن میں ٹرمپ کو بطور صدارتی امیدوار باضابطہ طور پر نامزد کردیا گیا۔
ٹرمپ کا دوسری بار بھی مقابلہ جو بائیڈن سے ہونا تھا مگر مباحثے میں بری پرفارمنس کے سبب بائیڈن دوڑ سے باہر ہوگئے۔ ڈیموکریٹک کنونشن میں کملا ہیرس کی توثیق کی گئی اور یوں انتخابی جنگ کے حریف بدل گئے۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ کملا ہیرس کو ہرانا زیادہ آسان رہےگا کیونکہ وہ کملا کو بائیڈن کی پالیسیوں سے نتھی کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 91 الزامات کے ساتھ دوسری صدارتی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔
وہ امریکی تاریخ کے تیسرے صدر ہیں جن کا مواخذہ کیا گیا۔ سن 2019میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے سیاسی حریف صدر بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کے خلاف تحقیقات کرائیں جو کہ یوکرین میں قائم قدرتی گیس کمپنی برسیما ہولڈنگز کے بورڈ ممبر رہے تھے۔
ڈیموکریٹ اکثریتی ایوان نے طاقت کے غلط استعمال اور غیرملکی حکومت کو اپنے سیاسی حریف پر کیچڑ اچھالنے کا موقع دینے پر ٹرمپ کا مواخذہ کیا مگر ری پبلکنز کی اکثریت والی سینیٹ نے انہیں بری کردیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ بھی الزام تھا کہ جو بائیڈن سے صدارتی الیکشن ہارنے پر انہوں نے اپنے حامیوں کا جتھا اس کانگریس کی عمارت کے باہر جمع کیا جہاں بائیڈن کی جیت پر مہر ثبت ہونا تھی۔ یہ لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کا نتیجہ تھا کہ ٹرمپ کی ہار کااعلان ہونے پر جتھے نے کیپیٹل ہل پرہلہ بول دیا، پانچ لوگ جان سے گئے۔
نوبت یہ آئی کہ عمارت میں موجود اراکین کانگریس اور خود ری پبلکن نائب صدر مائیک پنس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ اس معاملے پر بھی ٹرمپ کو ایوان میں مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا مگر سینیٹ نے یہاں بھی ان کی جان خلاصی کرائی۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اب اس معاملے پر مجرمانہ کیسز کا سامنا ہے۔
ان کے خلاف اس بات کی بھی تحقیقات ہوئی کہ ان کی انتخابی مہم میں روس نے کردار ادا کیا۔تاہم باضابطہ الزام عائد نہ کیا گیا۔
ٹرمپ کو کئی دیگر مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ انہی میں فحش فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینئیلز سے تعلق چھپانے کے لیے خاتون کو مبینہ طور پر سن 2006 میں دی گئی رقم کے معاملے پر کاروباری جعلسازی کے 34 الزامات بھی ہیں۔ جن کے سبب ٹرمپ پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔
ری پبلکن صدارتی امیدوار کو لکھاری ژان کیرول کی جانب سے لگائے جنسی تشدد کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس خاتون کو 88 ملین ڈالر دیں تاہم ٹرمپ نے فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں لائی گئیں۔ عالمی برادری اس وقت حیران رہ گئی جب امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہی کی بدولت ابراہام معاہدہ کیا گیا جس کے تحت بحرین، امارات، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔
مسلم اکثریتی آبادی والے سات ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا آنے پر پابندی لگائی گئی اور امریکا کی مسلم اراکین کانگریس کا تمسخر اڑایا گیا۔
ایران کے خلاف تو ٹرمپ اس حد تک گئے کہ نیوکلیئر ڈیل سے متعلق یورپی ممالک کی برسوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن سے امریکا سن دوہزار اٹھارہ میں ایسا دستبردار ہوا کہ پھر اس ڈیل پر واپسی ہی نہیں ہوئی۔ اس سے کچھ حلقوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ آیا ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز دونوں ہی کیا یہ ڈیل کرنے پرپچھتا رہے تھے جو بائیڈن انتظامیہ نے بھی اس سے جان چھڑائے رکھنے ہی میں عافیت سمجھی۔
سفارتی محاذ پر ایک اور ڈرامائی تبدیلی سن 2018 میں ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کم جانگ ان سے ملاقات کرلی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکا کا موجودہ صدر شمالی کوریا کے کسی سربراہ سے ملا ہو۔
یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ نے اپنی جس کیڈلک لیموزین کا کم جانگ ان کو لشکارا کرایا تھا، وہ تو شمالی کوریا نہ پہنچی، صدر پوٹن نے روس کی تیار کردہ اورس گاڑی میں کم جانگ ان کو نہ صرف سیرکرائی بلکہ گاڑی تحفے میں بھی دے دی۔
ڈّونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے لیے مطلوبہ رقم نہ دینے پرجرمنی سمیت یورپی اتحادیوں کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا اور اب تو یہاں تک کہہ دیا ہےکہ جو رقم دینے میں ناکام رہا، امریکا نہ صرف اس کا دفاع نہیں کرے گا بلکہ روس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ اس ملک کا جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو۔
ری پبلکن صدر نے نہ صرف چین سے تجارتی جنگ کی بلکہ میکسیکو ہی نہیں قریبی اتحادیوں کینیڈا، جاپان، جنوبی کوریا کے ساتھ بھی تجارتی معاہدوں کو از سرنو ترتیب دیا۔ساتھ ہی میکسیکو پر الزام لگایا کہ وہ جنسی مجرموں،منشیات فروشوں کو امریکا بھیج رہا ہے اوریہ کہ سرحد پر دیوار بنا کر وہ لاگت میکسیکو سے وصول کریں گے۔ غیر ملکی سربراہوں کی عزت افزائی اس حد تک کی گئی کہ ایک رہنما سے طنزاً پوچھا کہ تمھارا درزی کون ہے؟
ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے چیمپئن ملک کے صدر نے سن 2017 میں پیرس معاہدے سے دستبرداری کا بھی اعلان کیا۔ ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے نام پر کیا گیا یہ معاہدہ امریکی معیشت پر ضرب ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ 14 جون 1946 کو نیویارک کے علاقے کوئنز میں پیدا ہوئے۔ جو شخص آج یورپی ممالک کے رہنماؤں سے نیٹو میں کردار کے معاملے پر اکڑپھوں دکھانے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، وہ اسکول کی زندگی میں بھی اچھا برتاؤ کرنے کے حوالے سے کبھی جانا نہیں گیا، شاید یہی وجہ تھی کہ والد نے 13 برس کی عمر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک ملٹری اکیڈمی بھیج دیا تھا۔ بعد میں ٹرمپ نے پنسلوینیا کے وھارٹن اسکول سے ڈگری لی۔
ٹرمپ کے بھائی فریڈ نے پائلٹ بننے کو ترجیع دی تھی مگر کثرت شراب نوشی سے 43 برس ہی کی عمر میں چل بسے۔ بھائی کی ناگہانی موت نے ٹرمپ کو شراب اور سگریٹ سے ہمیشہ کے لیے دور کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب عالمی رہنماؤں کے ساتھ وہ جام صحت نوش کرنے کے لیے گلاس بلند کرتے ہیں تو اس میں شراب نہیں پانی ہوتا ہے۔
بھائی کی موت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے بروکلین میں پراپرٹی سے جڑا والد کا سارا بزنس سنبھال لیا۔ خود ان کے والد کا کہنا تھا کہ بیٹا جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے وہ سونا بن جاتی ہے۔ ٹرمپ نے والد کے کاروبار کو ٹرمپ آرگنائزیشن کا نام دیا۔ جدت اور تعیش کی مثال بنا کر اسے والد کی زندگی ہی میں آسمان پر پہنچایا۔ وہ ایک ایسے پراپرٹی ڈیولپر بنے جس نے نہ صرف امریکا کی مختلف ریاستوں بلکہ دبئی اور بھارت تک کاروبار پھیلایا۔
ٹرمپ برانڈ بن کر ابھرا تو انہوں نے ہوٹلز اور اپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ مشروبات، کپڑوں، گھریلو استعمال کی اشیا کی صنعتوں میں بھی قسمت آزمائی کی۔ یہاں تک کہ اپنا نام کندہ کی گئی کتاب مقدس تک بیچنے لگے۔ ٹرمپ یونیورسٹی سمیت ان کے کئی منصوبے ناکام بھی ہوئے، 6 منصوبوں میں انہوں نے خود کو دیوالیہ قرار دیا۔ اس وقت بھی ان کے اثاثوں کی مالیت 4 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
ٹرمپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں،1987 میں ان کی خود نوشست دا آرٹ آف ڈیل کی 30 لاکھ سےزائد کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔اس کا سیکوئیل سروائیونگ ایٹ دا ٹاپ ہو، دا آرٹ آف دا کم بیک یا دا امریکا وی ڈیزرو اور دیگر، سب ہی ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔
انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں قدم رکھا توڈونلڈ ٹرمپ مس یونیورس، مس یو ایس اے، مس ٹین یو ایس اے مقابلہ حسن کے میزبان بنے۔ دا اپرینٹس پروگرام کی میزبانی کی تو ریٹنگ کے ریکارڈ قائم کیے۔ اس پروگرام کا مقبول جملہ یوآر فائرڈ آج بھی وہ کملا ہیرس پر کستے نظر آتے ہیں۔
ٹرمپ امیگریشن کے لاکھ مخالف سہی، ان کی پہلی بیوی ایوانا زیلنیکوا کا تعلق جمہوریہ چیک سے ہے۔ایوانا ایتھیلیٹ اور ماڈل تھیں جن سے ان کے3 بچے ڈونلڈ جونئیر، ایوانکا اور ایرک ہیں۔1990میں جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی۔
اداکارہ مارلا میپلز سے 1993 میں انہوں نے دوسری شادی کی۔ جن سے ان کی بیٹی ٹیفانی پیدا ہوئیں مگر ان سے 1999 میں علیحدگی اختیار کرلی۔ میلانیا ٹرمپ سے شادی سن 2005 میں کی جن سے ان کا بیٹا بیرون ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ یوں تو صدر بننے کا خواب 1987 سے دیکھ رہے تھے مگر سن 2000 میں انہوں نے ریفارم پارٹی اور پھر سن 2012 میں ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
اوباما نے جس طرح تبدیلی کے نعرے سے انتخابی مہم چلائی تھی، ٹرمپ نے امریکا کو پھر سے عظیم بنانے یعنی میک امریکا گریٹ اگین کا نعرہ لگایا اور دیگر ری پبلکن حریفوں کو ہرا کر 2016 میں ری پبلکن پارٹی کا صدارتی ٹکٹ حاصل کرلیا۔
وہ پاپولر ووٹ تو نہ جیت سکے تھے مگر صدارتی الیکشن میں ہلیری کلنٹن کو انہوں نے الیکٹرول ووٹ سے ضرور ہرا دیا تھا۔ اس طرح وہ امریکا کے 45 ویں صدر بنے اور دیرینہ حسرت پوری کرلی۔ میڈیا سے نالاں ٹرمپ نے اب ٹوئٹر کو اپنا ماؤتھ پیس بنایا۔
ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکا سمیت دنیا کورونا وبا کی زد میں رہی۔ وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر پر زور دینے کے بجائے غیر سائنسی اقدامات کے سبب ٹرمپ کو اس عرصے میں شدید تنقید کا سامنا رہا۔ اس کے باوجود جب ٹرمپ خود کورونا میں مبتلا ہوئے تب بھی قرنطینہ کے بجائے اسپتال سے گاڑی میں باہر آگئے۔
ٹرمپ کےدور میں کورونا سے 4 لاکھ اموات ہوئیں اور امریکا کے سابق صدر براک اوباما کے بقول ٹرمپ نے درست اقدامات کیے ہوتے تو بہت سے لوگ آج زندہ ہوتے۔ اوباما ہی کے نزدیک ٹرمپ کے پہلے دور میں معاشی ترقی کے دعوے کھوکھلے ہیں، ٹرمپ نے محض وہ سنہری فصل کاٹی جس کے لیے زرخیز زمین اوباما جاتے جاتے تیار کرگئے تھے۔
بعض ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اصل نقصان سپریم کورٹ میں قدامت پسند تین ججوں کے تقرر سے پہنچایا۔ وہ جج جنہوں نے بہ یک جنبش قلم اسقاط حمل کے حقوق سلب کرلیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسقاط حمل کا ایشو اس وقت ان کے لیے سخت چیلنج بنا ہوا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے غیر روایتی سیاستدان ہیں جو بے باک انداز سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانےکا فن جانتے ہیں۔
وہ صدارتی الیکشن جیتیں یا ہاریں، امریکی تاریخ میں ان کا پہلا دور اور دوسرے دور کی انتخابی مہم میں کہی گئی باتوں کی مدتوں بازگشت رہےگی۔