30 اکتوبر ، 2024
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو رہا ہے جس میں مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کو یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ اگر انہیں چیف جسٹس بنایا گیا تو وہ فوج یا ریاست کے خلاف فیصلے نہیں دیں گے۔
ویڈیو کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI)کے ٹولز کا استعمال کرکے تیار کیا گیا ہے۔
21 اکتوبر کو، X (جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا) پر ایک صارف نے جسٹس منصور علی شاہ کی 34 سیکنڈ کی مبینہ ویڈیو اس کیپشن کے ساتھ شیئر کی: ”منصور شاہ صاحب کا قوم سے خطاب۔“
ویڈیو میں جسٹس منصور علی شاہ کومبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن تحریک انصاف ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہی ہے تاکہ انہیں فوج اور ریاست مخالف ثابت کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا ”جبکہ ایسی کسی بھی بات کا حقیقت یا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں،میں نے کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی اور نہ ہی کرونگا، میں اس بات پر حلف دینے کو تیار ہوں کہ اگر مجھے چیف جسٹس بنایا جاتا ہے تو میں اپنے عہدے کا پاس رکھوں گا، کبھی ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں جا=ں گا“.
اس آرٹیکل کے شائع ہونے تک، یہ پوسٹ 31 ہزار سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے اور تقریباً 200 مرتبہ شیئر کی گئی ہے۔
اسی طرح کے دعوے یہاں اور یہاں بھی شیئر کیے گئے، جہاں سوشل میڈیا صارفین یہ یقین کرتے نظر آئے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے واقعی ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔
یہ ویڈیو من گھڑت ہے اور عوامی طور پر دستیاب آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر جج نے ایسا کوئی ویڈیو پیغام ریکارڈ یا جاری نہیں کیا۔
اسلام آباد میں قائم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی (MMfD) کے بانی اسد بیگ نے جیو فیکٹ چیک کی درخواست پر آن لائن ویڈیو کا تجزیہ کیا۔
اسد بیگ نے کہا کہ ”ایک بہت ہی بنیادی بصری تجزیہ (basic visual analysis) کے ذریعے کوئی بھی اس بات کا پتہ لگا سکتا ہے کہ زیر بحث ویڈیو من گھڑت ہے جسے جوڑ کر بنایا گیا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ کی عوامی طور پر دستیاب [تصویر] کا استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہے جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ چہرے کی خصوصیات اور مسخ شدہ تقریر ابھری ہوئی تصاویر پر ریکارڈ کی گئی ہے۔“
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ آف پاکستان کے تعلقات عامہ کے افسر شاہد حسین کمبویو نے فون پر جیو فیکٹ چیک سے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو ”فیک“ ہے۔
ڈیپ فیک میں استعمال کی جانے والی تصویر لاہور ہائی کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ سے لی گئی ہے، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
ہمیں X (ٹوئٹر)GeoFactCheck @اور انسٹا گرام@geo_factcheck پر فالو کریں۔اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔