01 نومبر ، 2024
امریکا میں 5 نومبر کے صدارتی انتخابات قریب آتے ہی ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ کانٹے دار ہوتا جا رہا ہے تاہم ہر امریکی الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی سیاسی مہمات پر اربوں ڈالر بہائے جا رہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ رواں ماہ 5 نومبر کو امریکی صدارت کیلئے ہونے والے انتخابات جدید انسانی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔
ڈیموکریٹس کی کملا ہیرس نے جیسے ہی صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا تو اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ان کے کیمپین فنڈ میں 81 ملین ڈالر جمع ہو گئے، تین مہینوں میں یہ رقم بڑھ کر 1 ارب ڈالر ہو گئی ہے جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
ادھر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے پاس بھی بہت پیسہ ہے۔ ستمبر تک ٹرمپ نے 160 ملین ڈالر جمع کر لیے تھے، یہ رقم الیکشن اشتہارات، ریلیوں اور آن لائن کیمپین کیلئے استعمال ہوتی ہے۔
امریکا میں انتخابی مہم کی فنانسنگ کو شفاف رکھنے کیلئے کئی قوانین ہیں، جیسے سیاسی جماعت کو پیسہ دیا جا سکتا ہے لیکن امیدواروں کو براہ راست فنڈز دینے کی حد مقرر ہے۔ قانونی طور پر ایک شخص ایک امیدوار کو 3300 ڈالرز سے زیادہ رقم نہیں دے سکتا۔
امریکی انتخابات میں پولیٹیکل ایکشن کمیٹیز PACs کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ پریشر گروپس ہیں جو تیل اور گیس، ایرو اسپیس، اسلحہ ساز کمپنیوں سمیت بڑی بڑی صنعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
2010 میں سپریم کورٹ کے حکم پر سپُر PACs بھی بنادی گئیں، جن کی فنڈنگ افراد بھی کرتے ہیں، یونیز بھی اور کارپوریشنز بھی کر سکتی ہیں۔
یہ سپر PACs صدارتی امیدوار کو براہ راست فنڈ نہیں کر سکتیں لیکن امیدوار سے جڑی کسی بھی تنظیم کو جتنی رقم چاہیں دے سکتی ہیں۔ یوں امریکا کے امیر افراد یا لابیز اپنے پسند کے امیدوار کی سپورٹ پر جتنا پیسہ لٹانا چاہیں لٹا سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں پیسے کا اثر رسوخ پریشانی کی بات ہے کیونکہ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ الیکشن عوام کی مرضی کا عکاس ہے یا امیر ڈونرز کی مرضی کو ظاہر کرتا ہے۔
دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل متنازع ارب پتی ایلون مسک نے جولائی میں اعلان کیا کہ وہ ٹرمپ کی حامی سپر PAC کو الیکشن سے پہلے ہر مہینے 45 ملین ڈالرز دیں گے۔
اسی طرح ایک اور قدامت پسند ارب پتی میریم ایڈلسن نے بھی ٹرمپ کی حامی سپر PAC کو 95 ملین ڈلر کا الیکشن چندہ دیا۔