02 نومبر ، 2024
آئندہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے پاکستانی بزنس کمیونٹی، مسلم ووٹرز اور لوکل سطح پر منتخب ہونے والے پاکستانی نژاد سیاستدانوں میں ملا جلا ردعمل دیکھا گیا ہے۔
مسلم کمیونٹی جو کہ پہلے ہی ووٹ ڈالنے کے عمل میں کافی پیچھے رہی ہے، اس بار غزہ کی صورتحال کے سبب اور زیادہ متذبذب نظر آتی ہے۔
مسلمانوں کے حقوق سے متعلق دونوں بڑی پارٹیوں کے صدارتی امیدواران کی پالیسیاں کمیونٹی کے معیار پر پوری نہیں اترتیں جس کی وجہ سے متعدد مسلم ووٹرز احتجاجاً ووٹ ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں لوکل انتخابات میں حصہ لینے والے مسلم امیدواران کی موجودگی نے مقامی سطح پر کچھ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی طرف راغب ضرور کیا ہے مگر ان میں وہ جوش و جذبہ نہیں پایا جاتا جو پچھلے صدارتی انتخابات میں نظر آیا تھا۔ مسلم ووٹرز ذاتی تعلقات اور دوستی کی بنیاد پر تو لوکل امیدواروں کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن صدارتی امیدواران کے حوالے سے ان میں شدید بے یقینی اور عدم اعتماد کا ماحول ہے۔
کئی مسلم ووٹرز پولنگ اسٹیشن تو پہنچ رہے ہیں مگر یہ فیصلہ کرنے میں مشکل کا شکار ہیں کہ صدارتی امیدواروں میں کس کو ووٹ دیں۔ اس بے یقینی اور تذبذب کا ماحول کمیونٹی میں مایوسی اور عدم دلچسپی کا سبب بن رہا ہے۔
نتیجتاً مختلف حلقوں میں موجود مسلم امیدواران بھی اس سے بے چینی اور تشویش کا شکار ہیں اور اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر کمیونٹی کی عدم توجہ کے سبب انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
یہ صورتحال امریکا میں مسلم کمیونٹی کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن گئی ہے اور اس بات کی ضرورت بڑھ رہی ہے کہ مسلمان ووٹرز اپنے ووٹ کی طاقت کو سمجھیں اور اپنی ترجیحات کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔
اس ضمن میں ہم نے ہیوسٹن میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی بزنس کمیونٹی اور معروف شخصیات سے گفتگو کی۔
آئل بزنس کے ٹائیکون اور پاکستانی بزنس کمیونٹی کے معروف ریپبلکن رہنما سید جاوید انور نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے دو ملین ڈالر سے زائد کا عطیہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی معاشی پالیسیاں کاروباری طبقے اور معاشی استحکام کے لیے بہترین ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا “ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے دوران انٹرسٹ ریٹس کو کنٹرول میں رکھا جس کے نتیجے میں کاروباری مواقع بڑھے اور عوام کو گھر خریدنے کی سہولت ملی”۔
ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن کے دور میں انٹرسٹ ریٹس میں اضافہ ہوا ہے جس سے متوسط طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔
سید جاوید انور نے غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ “بائیڈن کی پالیسیاں غیر قانونی تارکین وطن کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دے رہی ہیں جس سے نہ صرف مقامی افراد کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں بلکہ جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے”۔
ہیوسٹن سے ریاست ٹیکساس اسمبلی کے رکن اور انتخابات میں دوبارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے ڈاکٹر سلیمان لالانی نے بھی صدارتی انتخابات کے حوالے سے کمیونٹی کے جوش و خروش کا ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ “ہماری کمیونٹی کا اس انتخابی عمل میں حصہ لینا ضروری ہے اگر ہم آگے نہیں بڑھیں گے تو تبدیلی ممکن نہیں۔” انہوں نے غزہ کے مسلمانوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کا حق کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دے رہا ہے اور اس اتحاد کو انتخابات میں حصہ لے کر تقویت دینا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “یہ نہ صرف مسلمانوں کا بلکہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی پارٹی کو ووٹ دیں مگر اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال ضرور کریں”۔
ہیوسٹن کی فورٹ بینڈ کاؤنٹی میں ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر اعلیٰ پولیس آفیسر کے عہدے کے امیدوار علی شیخانی نے کہا کہ پاکستانی مسلم ووٹرز جو ماضی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی رہے، اب وہ بڑی تعداد میں ریپبلکن پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ “آج کی نوجوان نسل زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہے، وہ سمجھتی ہے کہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پالیسیوں میں کیا فرق ہے یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو کئی مسلمان طبقات نے سپورٹ کیا ہے اور اسی بنیاد پر میں بھی کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہوں علی شیخانی نے کمیونٹی کو پیغام دیا کہ، “آپ کا ہر ووٹ قیمتی ہے۔ اس لیے باہر نکلیں اور اپنا ووٹ ڈالیں تاکہ آپ کے حقوق کا تحفظ ہو سکے”۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نبیل شائق نے کہا کہ وہ قومی سطح کی سیاست کے بجائے مقامی حکومت کی اہمیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، “مقامی حکومت براہِ راست عوام کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے میری کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ ان امیدواروں کو سپورٹ کریں جو انکی روزمرہ زندگی میں بہتری لا سکیں۔
نبیل شائق نے کہا کہ انہوں نے غزہ کے حق میں ایک مضبوط مؤقف اختیار کیا اور سیز فائر کا مطالبہ کیا جس سے وہ مسلمانوں کے سامنے سرخرو ہوئے۔ انہوں نے کہا، “میری کاؤنٹی میں ساؤتھ ایشین کمیونٹی کی بڑی تعداد ہے اور میں ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔
ہیوسٹن کے ایک پاکستانی ووٹر نے صدارتی انتخاب کے حوالے سے مزاحیہ انداز میں کہاکہ “ایک طرف اندھا ہے اور دوسری طرف کانا، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کانے کو ووٹ دو تو کچھ کہتے ہیں کہ اندھے کو مگر میرا مشورہ ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ کر اس تیسرے امیدوار کو ووٹ دو جو لنگڑا لولا ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بار مسلم ووٹرز کو چاہیے کہ وہ احتجاجاً اپنا ووٹ استعمال کریں تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ وہ کسی ایسے امیدوار کو ووٹ نہیں دے رہے جو جینوسائیڈ کو سپورٹ کرتا ہے۔
کچھ ووٹرز نے یہ بھی کہا کہ وہ آخری دن ووٹ ڈالیں گے اور ابھی تک یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ کس کو ووٹ دیا جائے تاہم کئی ووٹرز ایسے بھی ہیں جو صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لے کر احتجاجی پیغام دینا چاہتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔