بھارت میں اگرچہ ججز براہِ راست اعلیٰ عدلیہ میں ججز کا تقرر نہیں کرتے، لیکن ان تقرریوں پر ان کا نمایاں اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
02 نومبر ، 2024
پالیمنٹیرینز کو اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے انتخاب میں زیادہ اختیارات دینے والی پاکستانی آئین کی 26 ویں ترمیم کے منظور ہونےکے بعد اوراس کی منظوری سے قبل بھی پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےمختلف ٹیلی ویژن انٹرویوز میں متعدد مرتبہ یہ کہا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں ججز دیگر ججز کی اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کرتے ہیں۔
دعویٰ گمراہ کن ہے۔
30 ستمبر کو جیو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے پروگرام کے میزبان کو چیلنج کیا کہ وہ کوئی ایسا ملک بتائیں جہاں ججز خود ججز کی تقرری کرتے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ”مجھےدنیا میں ایک ملک کی مثال بتائیں جہاں عدلیہ کی تعیناتیوں کا پراسیس ہو تو it is done by the judges, for the judges and of the judges؟“
8 اکتوبر کو دنیا نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ”صرف پاکستان میں ہی ایسا ہے جہاں ججز خود ججز کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے ایک ایسی عدلیہ وجود میں آتی ہے جو عدلیہ کی ہے، عدلیہ کے ذریعے ہے اور عدلیہ کے لیے ہے۔
حال ہی میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے میزبان سے اسی سے ملتا جلتا سوال کیا اور کہا کہ کسی ایسے ملک کی مثال دیں جہاں ”ججز کسی جج کو مقرر کرتے ہیں اور ججز کسی جج کو برطرف کرتے ہیں۔“ جب صحافی نے بھارت کا ذکر کیا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ یہ مثال صرف ”سینارٹی کے اصول پر لاگو ہوتی ہے۔“
انہوں نے بعد میں کہاکہ ”لیکن تقرری کا طریقہ کار کیا ہے انڈیا میں؟ ...ایسا کوئی ملک نہیں ہے جہاں ججز جج مقرر کریں اور ججز ہی جج کو برطرف کریں۔“
اسی طرح اے آر وائی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا: ”میں نے دنیا میں کہیں بھی یہ نہیں دیکھا کہ ججز دوسرے ججز کی تقرری کرتے ہیں۔“
اس بیان کے بعد کچھ سوشل میڈیا صارفین بلاول بھٹو زرداری کے اس دعویٰ کو درست تصور کرنے لگے۔
یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔
بھارت میں، اگرچہ ججز براہِ راست اعلیٰ عدلیہ میں ججز کو مقرر نہیں کرتے، لیکن ان تقرریوں پر ان کا نمایاں اثر و رسوخ ہوتا ہےجبکہ انتظامیہ صرف برائے نام تقرری کی مجاز ہوتی ہے۔
ہندوستان کے سپریم کورٹ کے وکیل، طلحہ عبدالرحمن نے جیو فیکٹ چیک کو ایک تحریری جواب میں وضاحت کی کہ بھارت کی اعلیٰ عدالت کے ججز کی تقرری صدر مملکت کی جانب سے چیف جسٹس اور دیگر سینئر ججز کے مشورے سے کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ پراسیس ایک کالجیئم (collegium) سسٹم کی سفارشات کے تحت ہوتا ہے جس میں بھارت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز شامل ہوتے ہیں“۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کالجیئم ممکنہ امیدواروں کا تقرر قابلیت، دیانتداری اور تجربے کی بنیاد پر کرتا ہے۔
طلحہ عبد الرحمن نے کہا کہ”کالجیئم کی کچھ سفارشات بھارت کے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، جو اب زیادہ شفافیت لانے کے لیے شائع کی جا رہی ہیں۔ـ“
طلحہ رحمان نے مزید کہا کہ نظریاتی طور پر، حکومت کسی جج کی تقرری پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کر سکتی ہے اور تجویز کو کالجیئم کے پاس واپس بھیج سکتی ہے۔ تاہم اگر کالجیئم سفارشات کو دوبارہ پیش کرتا ہے تو حکومت ”سفارشات پر عمل کرنے کی پابند“ ہوتی ہے۔
بھارت کے چیف جسٹس کی تقرری کے بارے میں طلحہ رحمان نے وضاحت کی کہ روایت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس مقرر کیا جاتا ہے۔ ”یہ طریقہ کار عدلیہ کی خود مختاری اور دیانتداری کو برقرار رکھنے کے لیے اپنایا گیا ہے، ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس اکثر اپنے بعد سب سے سینئرکی سفارش صدر کو کرتے ہیں۔“
بھارت میں اعلیٰ عدالت کے ججز کی تقرری کے لیے بھی ایک ایسا ہی کالجیئم سسٹم استعمال کیا جاتا ہے، اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس اور دو سب سے سینئر ججز سفارشات سپریم کورٹ کے کالجیئم کو بھیجتے ہیں۔
طلحہ عبد الرحمن نے کہاکہ ”پہلےاعلیٰ عدالت کے ججز کی سنیارٹی ایک اہم شرط تھی لیکن گزشتہ چند برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اگرچہ سنیارٹی ایک اہم تقاضا ہے لیکن یہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری کے وقت اتنی لازمی شرط نہیں ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی رائے میں اگرچہ کالجیئم سسٹم میں کچھ حدود ہیں لیکن حکومت ”جو عدالتوں میں سب سے بڑی فریق ہے کو ججز کی تقرری پر زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہونا چاہیے۔“
بھارت کے آئین کے وہ آرٹیکلز جو ججز کی تقرری کے حوالے سے ہیں، بھارتی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر یہاں دستیاب ہیں۔
اس کے علاوہ، پاکستانی وکیل صلاح الدین احمد نے جیو فیکٹ چیک کو وضاحت کی کہ اگرچہ جمہوری ملکوں میں ججز کی تقرری کے مختلف نظام ہوتے ہیں لیکن ہمسایہ ملک بھارت میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز خود ججز کی نامزدگی کرتے ہیں جبکہ حکومت صرف ایک رسمی نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے۔
صلاح الدین احمد نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ کہنا غلط ہے کہ 26ویں ترمیم سے پہلے پاکستان میں صرف ججز ہی ججز کی تقرری کرتے تھے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ 18ویں اور 19ویں ترمیم کے بعد، عدالتی تقرریاں ایک عدالتی کمیشن کے ذریعے کی گئی تھیں، جس میں حکومت اور عدلیہ دونوں کے نمائندے شامل تھے۔ پھر یہ نام ایک پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جاتے تھے، جس میں حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین شامل ہوتے تھے۔
صلاح الدین احمد نے کہا کہ”اب [نئے] عدالتی کمیشن میں جو توازن ہے وہ حکومت کے حق میں ہے۔“
ہمیں X (ٹوئٹر) @GeoFactCheck اور انسٹا گرام @geo_factcheck پر فالو کریں۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔