06 نومبر ، 2024
بانی پی پی پی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مارشل لا لگنے کے کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے تو جنرل ضیاء الحق کو اندازہ ہو گیا کہ اُس کو رہا کرنا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
لہٰذا سب سے پہلے پارٹی کے اندر اُس کے قریب ترین لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اُسکی پھانسی تک پی پی پی کی سینٹرل کمیٹی نے احتجاج کی کوئی کال نہ دی البتہ کچھ رہنما این آر او یا ڈیل کی کوشش کرتے رہے۔ دوسری طرف جذباتی کارکن اور مقامی رہنما اپنے تئیں خود سوزی کرتے رہے، کوڑے کھاتے رہے یہاں تک کے پھانسی بھی چڑھ گئے ۔ اب 45سال سے یہ رہنما نعرہ لگاتے ہیں، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، جب وہ زندہ تھا تو پھانسی کا انتظار ہو رہا تھا۔ اسی لیے اپنی آخری ملاقات میں بھٹونے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو خبردار کر دیا تھا کہ کن لوگوں پر اعتبار کیا جا سکتا اور کن سے دور رہنا ہے۔ اس سب میں ایک سبق ہے۔
بھٹو سیاست کے طالب علم تھے اور بہت کم عمری ہی میں غالباً 32سال کی عمر میں اقتدار کی ذمہ داریوں تک پہنچ گئے تھے اور شاید اُنہیں اندازہ تھا کہ اس ملک کی سیاست میں انٹری کیلئے کس ’’گیٹ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اُنکی بیٹی بے نظیر بھٹو کی سیاست کا آغاز مارشل لا مخالفت سے ہوا اور انہوں نےباپ کو پھانسی چڑھتے دیکھا، طویل جلا وطنی دیکھی، واپس آئیں تو تاریخ کا سب سے بڑا استقبال ہوا، الیکشن میں کامیابی ملی مگر اقتدار مشروط کر دیا گیا چند شرائط سے جن میں افغان پالیسی کا تسلسل جاری رکھنا اور چند وزارتیں پارٹی سے باہر کی مرضی سے۔ اس سب کے باوجود وہ آخر میں شہید کر دی گئیں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی انٹری سیاست میں بھٹو کی سیاست کے خاتمہ کیلئے کی گئی تھی خاص طور پر پنجاب میں جس میں وہ طرز سیاست بھی اپنایا گیا جس کے بغیر شاید ایک غیر سیاسی بزنس سے تعلق رکھنے والے میاں صاحب کو مقبولیت نہیں مل سکتی تھی یعنی ایک لسانی نعرہ ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نو لگ گیا داغ‘‘ پھر ہم نے میاں صاحب کا عروج بھی دیکھا اور دوتہائی اکثریت کے باوجود اقتدار سے بے دخلی بھی اور پھر عمرقید اور اس سزا میں اضافے کی اپیل بھی دائر ہوئی۔ اس دوران اُن کے رہنمائوں کا طرز عمل بھی کم و بیش وہی رہا جو بھٹو کی پھانسی کے وقت پی پی پی کے رہنمائوں کا تھا۔
’’میثاق جمہوریت‘‘ کی دستاویز دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کی راہ میں اصل رکاوٹ کہاں پیدا کی جاتی ہے اور اسکو روکنے کیلئے ہی اس میثاق میں بنیاد فراہم کی گئی ۔ 2008ءسے 2024ء تک اُنہی قوتوں کو مزید طاقت دی گئی اور آج بھی دی جا رہی ہےجنکے خلاف مفاہمت کیلئے ’’میثاق‘‘ کیا گیا تھا۔ ان دونوں جماعتوں کے اسی طرز سیاست اور خراب طرز حکمرانی نے جنم دیا ایک تیسرے آپشن کو جس کا نام ہے عمران خان۔ وہ بھی میاں صاحب کی طرح سیاسی نہیں تھا مگر شاید وہ واحد لیڈر رہا جو سیاست سے پہلے بھی اور بعد میں بھی میڈیا کی فرنٹ پیج اسٹوری رہا۔ اُس وقت کی مقتدرہ کے اہم کردار جنرل حمید گل نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور دیگر نے بھی کیونکہ وہ میاں صاحب اور بی بی کی سیاست اور طرز حکمرانی سے ناراض تھے مگر عمران کی سیاسی اُٹھان میں 1992 ء کے ورلڈ کپ کی جیت، شوکت خانم کینسر اسپتال کا قیام اور پی پی پی، مسلم لیگ کی آپس کی لڑائی، خراب طرز حکمرانی اور مبینہ کرپشن کی ان گنت کہانیوں کا بھی بڑا کمال ہے۔عمران نے 2011 ء کے بعد جس تیزی سے مقبولیت حاصل کی اُس کا اندازہ شاید مقتدرہ کو بھی نہ تھا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا شاید واحد سیاستدان ہے جس نے نہ صرف جرنیلوں اور ججوں کے گھروں میں جگہ بنائی بلکہ جس طبقہ میں اُسے لازوال پذیرائی ملی وہ نوجوان اورخاندان تھے جن کا 40 فیصد آج بھی اُس کے ساتھ ہے۔
تاہم نواز شریف اب بھی پنجاب میں مضبوط تھے اور انہوں نے 2013ء میں بھی کامیابی حاصل کی بلکہ 2016ء میں پانامہ لیک کے بعد نااہلی اور سزا کے بعد بھی جب عمران کیلئے راستہ ہموار تھا 2018ء میں اُسے سادہ اکثریت نہیں ملی اور اُس وقت کی مقتدرہ نے کراچی سے پہلے پی ٹی آئی کی نشستوں میں اضافہ کروایا اور پھر ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور جنوبی پنجاب محاذ کے ذریعہ عمران کی حکومت بنی۔ تاہم اُن کے طرز حکومت میں واضح طور پر ناتجربہ کاری نظر آئی خاص طور پر پنجاب میں اور جلد وہ مقبولیت کھونے لگے۔ انہوں نے زیادہ توجہ اپنے سیاسی مخالفین کو گرفتار کروانے پر دی اچھی گورننس پر نہیں۔
عمران کی اقتدار سے بے دخلی اور عدم اعتماد اُن کے جنرل فیض کو ڈی جی ISI رکھنے پر اختلافات سے ہوا کیونکہ جنرل باجوہ ان کا ٹرانسفر کرنا چاہتے تھے۔ اُن کے اقتدار میں ابھی ڈیڑھ سال باقی تھا اور مقبولیت کم ہو رہی تھی مگر 10اپریل 2022ء کے بعد انہیں جو حمایت حاصل ہوئی اُس کی بڑی وجہ شہباز شریف حکومت کے 16ماہ تھے جس نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تو عمران کی مقبولیت کو روکنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا ۔ اس دوران اُس نے پنجاب اور کے پی کی اپنی حکومتیں ختم کر کے بڑی غلطی کی اس سب کے باوجود اب وہ پنجاب کا بڑا لیڈر ین چکا تھا اور نواز شریف گرائونڈ کھو چکے تھے جسکا اندازہ انہیں اپنی واپسی پر ہوا۔ 8فروری کو الیکشن ہوئے تو عمران نااہل تھے اور جیل میں، 9مئی کے بعد پارٹی قیادت گرفتار بھی تھی اور زیر زمین بھی۔ الیکشن نشان بھی آخری وقتوں میں لے لیا گیا۔ یہ شاید تاریخ کا واحد الیکشن ہےجو نہ پارٹی نے لڑا نہ لیڈر نے بلکہ ووٹرز نے اور پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں آزاد اُمیدواروں کو کامیابی ملی۔ کسی بھی معاشرے میں ووٹ کو عزت دو کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے۔نواز شریف کا وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ آزادانہ انداز میں حکومت نہیں کر سکتے تھے ۔
اس وقت ہم ایک سول مارشل لا کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے بھی فیصلہ ہونے جارہا ، 90 روز تک بنا وارنٹ گرفتاری بھی ہو پائے گی ۔ عین ممکن ہے عمران کا فوجی عدالت میں ہی مقدمہ چلے۔ اعلیٰ عدلیہ کا تو ہمیشہ کردار مشکوک ہی رہا ہے مگر اس کا جواب 26ویں آئینی ترمیم نہیں’’میثاق جمہوریت‘‘ کی اصل شق پر عمل سے ہے جس پر عملدرآمد کی ہمت وزیراعظم شہباز شریف یا آصف علی زرداری میں نہیں۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے بعض رہنما وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو 1979ءمیں پی پی پی کے بعض رہنمائوں نے ادا کیا اور 12اکتوبر 1999کے بعد مسلم لیگ کے بعض رہنمائوں نے کیا۔
اب 9مئی کے بعد 9نومبر آ رہا ہے۔ کے پی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور ایک بار پھر ’’کفن پہن‘‘ کر نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں حکومت کے خاتمے اور اُسے دفنانے کیلئے۔ اب صوابی کے جلسے میں کیا اعلان ہوتا ہے، انتظار رہے گا۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں مقبولیت جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہوتا ہے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اور وہ فیصلہ عمران کے حق میں آیا۔ یقین نہیں تو دوبارہ الیکشن کرا کے دیکھ لیں عام انتخابات نہیں تو پنجاب میں بلدیاتی الیکشن۔ ’’سول مارشل لا‘‘ مسئلے کا حل نہیں اس سے لیڈر ختم نہیں ہوتے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔