13 نومبر ، 2024
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے امریکا میں غیرقانونی طورپر مقیم افراد میں کھلبلی مچ گئی ہے، پاکستانیوں سے زیادہ بھارتی شہری پریشان ہیں کیونکہ غیر قانونی طورپر امریکا میں مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد انتہائی زیادہ ہے۔
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی جبری بیدخلی کا آپریشن شروع کرنے کا انتخابی وعدہ پورا کریں گے کیونکہ انکے نزدیک امریکا کے پاس اسکے علاوہ کوئی رستہ ہی نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی مقصدکیلئے اپنے پہلے دور صدارت میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے قائم مقام سربراہ کو بارڈر زار نامزد کردیا ہے، ٹام ہومین کو سینیٹ کی منظوری کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
2022 کےسروے کے مطابق امیگرینٹس امریکا کی آبادی کا 14 اعشاریہ 3 فیصد ہیں، خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2022 سے اب تک مزید ایک ملین افراد غیرقانونی طورپر امریکا میں داخل ہوئے ہیں جبکہ کیوبن،ہیٹین، نکاراگوان، وینزویلین پروگرام اور یونائٹنگ فار یوکرین پروگرام کے تحت مزید 5 لاکھ افراد کو امریکا آنے دیا گیا ہے۔
یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ غیرقانونی طورپر مقیم امیگرینٹس کی تعداد امریکی آبادی کا 3 اعشاریہ3 فیصد ہے، پیو ریسرچ کے مطابق امریکا میں بغیر دستاویز کے مقیم ان ایک کروڑ 10 لاکھ افراد میں سے 80 فیصد ایسے ہیں جو ایک عشرے یا اس سے بھی زیادہ وقت سے امریکا میں مقیم ہیں، ان میں سے 83 لاکھ روزگار سے وابستہ ہیں۔
نو منتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ غیرقانونی طورپر مقیم 10 لاکھ افراد امریکا سے سالانہ واپس بھیجے جائیں گے، ٹرمپ کے امیگریشن مشیر اسٹیفن ملر کے مطابق اس کے لیے ملازمت کی جگہوں پر چھاپے مارے جائیں گے اور ڈیپورٹیشن کا آپریشن فوجی جہازوں کے ذریعے کیا جائے گا جس کے لیے نیشنل گارڈز کی خدمات لی جائیں گی۔
اس وقت آئی سی ای کے پاس 6 ہزار قانون نافذ کرنیوالے اہلکار ہیں جبکہ 10 لاکھ افراد کو سالانہ ڈیپورٹ کرنے کے لیے حکام کے نزدیک کم سے کم ایک لاکھ اہلکار درکار ہوں گے،سالانہ بیدخلی کے اس منصوبے پر 88 ارب ڈالر اخراجات آئیں گے اور 10 سال میں ایسے تمام افراد کو نکالنے پر 9 سو 67 اعشاریہ 9 ارب ڈالر خرچ آئے گا۔
رپورٹس کے مطابق غیرقانونی طورپر مقیم برسر روزگار افراد کی بڑی تعداد تعمیرات، میزبانی اور زراعت کے شعبوں سے وابستہ ہے۔ ایسے امیگرینٹس کی جبری بیدخلی کی گئی تو اس سے جی ڈی پی بھی ایک اعشاریہ 7 کھرب ڈالر کم ہوجائے گا۔
سروے کے مطابق 39 فیصد ووٹرز چاہتے ہیں کہ غیرقانونی امیگرینٹس کی زیادہ تر تعداد کو بیدخل کردینا چاہیے تاہم 56 فیصد کے خیال میں انہیں قانونی درجہ حاصل کرنے کی درخواست دینے کا حق دیا جانا چاہیے۔
امریکی میڈیا کے مطابق دستاویز نہ رکھنے والے 5 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں والدین بچپن ہی میں امریکا لے آئے تھے، انہیں ڈیفرڈ ایکشن فار چائلڈ ہوڈ آرائیولز پروگرام یعنی ڈاکا کے تحت تحفظ حاصل ہے، 40 لاکھ سے زیادہ بچے ایسے ہیں جن کے والدین کے پاس دستاویز نہیں، انہیں تنہا رہنے یا اپنے والدین کے ساتھ وطن واپسی میں سے کسی ایک کا چناؤ کرنا ہوگا، ٹرمپ کے پہلے دور میں بھی 5 ہزار بچوں کے ساتھ ایسا کیا جا چکا ہے۔
پیو ریسرچ کے مطابق2019 سے2022 تک کریبین،جنوبی امریکا، ایشیا، یورپ اور سب سہارن افریقا سمیت مختلف جگہوں سے غیرقانونی امیگرینٹس امریکا آئے، نتیجے میں فلوریڈا،ٹیکساس، نیویارک، نیوجرسی، میساچوسٹس، میری لینڈ میں غیرقانونی امیگرینٹس کی تعداد بڑھی جبکہ واحد ریاست کیلیفورنیا تھی جہاں یہ تعداد کم ہوئی۔
غیرقانونی امیگرینٹس میں میکسیکو کے شہری سرفہرست ہیں،اس وقت 40 لاکھ سے زائد میکسیکن شہری ایسے ہیں جن کے پاس دستاویز نہیں،انکی تعداد امریکا میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کا 37 فیصد ہے، دوسرا نمبر السلواڈور کا ہے جس کے غیرقانونی طورپر امریکا میں مقیم شہریوں کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار ہے۔
تیسرا نمبر بھارت کا ہے جس کے امریکا میں غیرقانونی طورپر مقیم افراد کی تعداد 7 لاکھ 25 ہزار سے زائد ہے اور یہ تعداد 2017 سے مسلسل بڑھ رہی ہے، صرف 2023 میں امریکاغیرقانونی طورپر داخل ہونے والے ایک لاکھ سے زائد بھارتیوں کو امریکی حکام نے روکا تھا جن میں سے 30 ہزار کینیڈا کی سرحد سے داخل ہورہے تھے۔ایک عشرے پہلے تک امریکا آنے والے بھارتیوں کی تعداد 15 سو سالانہ کے قریب تھی جو 2019 میں بڑھ کر 10 ہزار تک جاپہنچی تھی۔
بھارت کا تیسرا نمبر اپنی جگہ، 6 لاکھ 75 ہزار افراد کے سبب گوئٹے مالا کا چوتھا اور 5لاکھ 25 ہزار افراد کے سبب ہنڈوراس کا پانچواں نمبر ہے۔
جہاں تک پاکستانیوں کا تعلق ہے تو سروے کے مطابق امریکا میں قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی تعداد ساڑھے 6 لاکھ ہے تاہم یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ انکی اصل تعداد 10 لاکھ کے قریب ہے۔ وزارت خارجہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے اس نمائندے کو بتایا کہ امریکا میں بغیرقانونی دستاویز کے مقیم پاکستانیوں کی اصل تعداد کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا مگر جب انکے دو مختلف اعداد وشمار سامنے آرہے ہوں تو یقینا غیرقانونی امیگرینٹس کی کچھ تعداد تو ہے۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ ڈیپورٹیشن کے لیے 1798 دور کا ایلین اینیمیز ایکٹ استعمال کریں گے ، یہ ایکٹ 1812 کی جنگ، جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم میں جاپانیوں، جرمن اور اطالوی نثراد افراد کو کیمپوں میں ڈالنے کیلئے استعمال کیا جاچکا ہےتاہم اس کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ امیگرینٹس کو غیرملکی حکومتوں نے بھیجا تھا۔
سوال یہ بھی ہے کہ ڈیپورٹیشن کیلئے ترجیحات کیا ہوں گی؟ ٹام ہومین کے مطابق سب سے پہلے ان افراد کو بیدخل کیا جائے گا جو عوام اور قومی سلامتی کیلیے خطرہ ہیں، ان کے پاس ایک حل یہ ہے کہ وہ بارڈر پر جا کرخود کو حکام کے حوالے کردیں اور 24 گھنٹے میں رہائی پالیں ورنہ جج جسے حکم دےگا، اسے نکال باہر کیا جائے گا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بیدخلی کیلئے امریکا میکسیکو سرحد اولین ترجیح ہوگی اورسب سے پہلے مجرموں کو نکالا جائے گا۔
ٹرمپ کے پہلے دور میں بھی 15 لاکھ افراد کو امریکا کے اندر اور سرحد سے بیدخل کیا گیا تھا۔یہی نہیں امریکن امیگریشن کاونسل کے مطابق ٹرمپ کے پہلے دور میں یوایس سیٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز نے جتنی تعداد میں لوگوں کی ایچ ون بی درخواستیں مسترد کیں یہ ان سے پہلے 4 سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھیں۔
امریکا میں گرفتار کرکے بیدخل کیے جانیوالوں کی تعداد پچھلے 10 سال کے دوران سالانہ ایک لاکھ کے قریب رہی ہے، اوباما دور کے ابتدائی سالوں میں یہ تعداد 2 لاکھ 30 ہزار تک جاپہنچی تھی، ان 8 برسوں میں 30 لاکھ سے زائد افراد جبری بیدخل کیے گئے جس کی وجہ سے براک اوباما کو طنزا ڈیپورٹرانچیف کہا جانے لگا تھا۔
حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جون 2024 سے ابتک امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی ایک لاکھ 60 ہزار غیرقانونی مقیم افراد کو جبری بیدخل کرچکا ہے۔جس کے لیے بھارت سمیت 145 ممالک کے لیے 495 انٹرنیشنل پروازیں استعمال کی گئیں۔
صرف 2023 میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد کو بیدخل کیا گیا، دوسرے لفظوں میں جتنی تعداد میں صدر بائیڈن نے صرف 2023 میں غیرقانونی امیگرینٹس کو میکسیکو سرحد سے ڈیپورٹ کیا، یہ ٹرمپ کی 4 سالہ صدارت کے کسی بھی سال سے زیادہ تھی جبکہ فروری 2024 تک مجموعی طور پر 11 لاکھ افراد کو بیدخل کیا جا چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ تعداد ٹرمپ دور کی تعداد کے برابر ہوجائے۔
امریکی تاریخ میں ریکارڈ سطح پر صرف 1954 میں لوگوں کی جبری بیدخلی کی گئی تھی جب 13 لاکھ افراد خصوصاً تنہا رہنے والے میکسیکن مردوں کو ذلت آمیز نام آپریشن ویٹبیک کے تحت میکیسکو ڈیپورٹ کیا گیا تھا۔صدر آئزن ہاور دور کا یہ پروگرام 1955 میں ختم کردیا گیا تھا کیونکہ ایک تو امریکی شہری بھی بیدخل کردیے گئے تھے اور دوسرے اخراجات کیلئے رقم بھی نہ تھی۔
امریکا میں قانونی درجے کے بغیر مقیم افراد کو یہ حق ہے کہ وہ جبری بیدخلی سے پہلے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکیں، یہی وجہ ہے کہ ملازمتوں کے مقامات پر ٹرمپ دور میں جو چھاپے مارے گئے تھے، اس عمل کو 2021 میں معطل کردیا گیا تھا، خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تاریخی پیمانے پر جبری بیدخلی کا نیا پروگرام بھی عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔
اس صورتحال میں بعض مساجد، گرجاگھروں اور معبد نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے دروازے ایسے لوگوں کے لیے کھول دیں گے جنہیں ڈیپورٹیشن کا خطرہ ہے، صرف لاس اینجلس کاؤنٹی ہی میں غیرقانونی دستاویز رکھنے والے افراد کی تعداد 8 لاکھ سے زیادہ ہے اور شہر کی میئر کیرن باس کا کہنا ہے کہ خواہ کوئی کہیں بھی پیدا ہوا ہو، کیسے ہی امریکا کیوں نہ آیا ہو، لاس اینجلس اسکا ساتھ کھڑا رہے گا۔
ٹرمپ کی جانب سے جبری بیدخلی کاانجام کیا ہوگا یہ تو جنوری میں واضح ہوگا، تاہم حلف اٹھانے سے پہلے ہی نومنتخب صدر نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ سرحد کو مضبوط تو بنائیں گے مگر یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ امریکا آئیں۔