16 نومبر ، 2024
اسموگ فی الحال وہ واحد موضوع ہے جس پر ابھی تک یہ سیاست نہیں ہوئی کہ اس کا ذمہ دار نواز شریف ہے یا عمران خان؟ اس کی وجہ پیپلز پارٹی ہے یا پھر تحریک انصاف؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اسموگ کے ذمہ دار ہیں۔
ہم سب کے چولہے، ہماری موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں، فصلوں کی آگ کا دھواں، صنعت اور بھٹوں کا فضلہ اور خوفناک دھواں اور پھر سب سے بڑھ کر ہماری دہائیوں کی لاپرواہی اصل وجوہات ہیں۔ جن سے آہستہ آہستہ اس عفریت نے آ کر ہم سب کو دبوچ لیا ہے۔
ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ مغلِ اعظم جلال الدین اکبر تھا جس کی سلطنت کی سرحدیں نیپال سے لے کر سینٹرل ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں، اس وقت دارالحکومت فتح پور سیکری تھا لیکن اکبر اپنے حرم سمیت تقریباً 16سال (1582ء تا 1598ء) لاہور میں مقیم رہا۔ فتح پور سیکری میں پانی کم اور خراب تھا، لاہور میں پانی کی فراوانی تھی اور یہ صاف اور میٹھا تھا، آب و ہوا بھی صاف تھی۔ شہر میں باغات تھے لاہور کے ارد گرد جنگل تھے۔
اکبر کا بیٹا شہزادہ سلیم جو بعد میں جہانگیر کے نام سے تخت نشین ہوا اسے شیخوپورہ کے جنگل ہی کے ہرن ’’منس راج‘‘ سے بہت پیار تھا اور آج بھی شیخو کی یہ محبت ہرن مینار کی شکل میں زندہ و پائندہ ہے گویا اس وقت لاہور کے ارد گرد جنگل تھے جن میں ہرن اور دیگر جانور پائے جاتے تھے، تاریخی اذکار میں شیروں کے شکار کا بھی ذکر ہے۔ مغل دور میں شاہی قلعہ لاہور میں حرم کی ایک رنگا رنگ تقریب کے دوران آگ لگ گئی جس کی زد میں وہاں موجود سونے کاذخیرہ بھی آگیا، سونا پگھلا تو لاہور کی گلیوں میں پانی کی نالیوں میں اس کے ذرات بہنے لگے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ لاہور کے لوگوں نے نالیوں سے سونے کے ذرات اکٹھے کر لئے گویا نکاسی کا نظام اس قدر عمدہ تھا کہ ذرات دور تک بہتے چلےگئے تھے۔
یہ سولہویں صدی کا ذکر ہے اور آج 21ویں صدی کا جدید پنجاب اور لاہور اسموگ، دھند، ماحولیاتی آلودگی اور ڈینگی کی لپیٹ میں ہے جنگل کاٹے گئے، باغ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر ہوگئے، بادامی باغ اور باغ منشی لدھا کے صرف نام باقی ہیں، یہاں تو اب بُچہ باغ بھی ختم ہو چکا۔ ہماری کوتاہیوں او ر غلطیوں کا نتیجہ کبھی نہ کبھی تو نکلنا ہی تھا اور اب سامنے آ چکا۔
برطانیہ کے شہر لندن میں بھی 1952ء میں خوفناک اسموگ کا حملہ ہوا سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں پھر 1956ء میں کلین ایئر قانون سازی کی گئی اور اب لندن میں دور دور تک سموگ کا خطرہ تک نہیں ہے، لندن جیسے شہر میں جگہ جگہ باغ اور پارکس ہیں۔ برطانیہ کی قانون سازی کے بعد امریکہ، آسٹریلیا اور دوسرےبہت سے ممالک میں بھی صاف فضا اور شفاف ماحول کے بارے میں سخت قوانین بنائے گئے اور اس سے ماحول میں بہت بہتری آئی۔ ہمیں بھی فوری طور پر اسی طرز کی قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد شروع کر دینا چاہیے۔
اسموگ ایک دو سال میں ٹلنے والی بلا نہیں اسے ختم کرنے میں دیر لگے گی اور بہت محنت بھی کرنا ہوگی۔ ابھی یونیورسٹی کے نوجوان مالک ابراہیم مراد نے تجویز دی ہے کہ تہران کی طرح گاڑیوں کیلئے Even اور Odd دن مقرر کئے جائیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کیلئے خصوصی سہولتیں دی جائیں صنعتیں اور بھٹے شہر سے دور منتقل کئے جائیں اور ان سے خارج ہونیوالے دھویں کو صاف کرنے کی مشینری لگانا لازم قرار دیا جائے، درخت اور پارکس دوگنا کئے جائیں فصل کی باقیات جلانے پر سزائیں عائد کی جائیں اور کسانوں کو فصل کی باقیات کے اتلاف کے متبادل طریقے سکھائے جائیں۔
نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دور میں اسکول بند کئے گئے، اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات کی تلفی کے حوالے سے سخت اقدامات کئے گئے، دو تین روز کیلئے گاڑیاں بھی بند کی گئیں، مصنوعی بارش تک برسائی گئی مگر بالآخر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات والا نکلا۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ ماحولیات کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اس وقت تک کی تحقیق نہ مکمل ہے اور نہ درست۔ اگر کسی کو اسموگ کی اصل وجہ کا ہی علم نہیں تو اس کا تدارک کیا ہوگا؟تاریخ کے ورق گردانی کریں تو کئی صدیوں پہلے بھی غیر ملکی سیاحوں اور حملہ آوروں نے جو سردیوں کے اسی موسم میں اس خطے میں آئے، یہ لکھا ہے کہ ملتان سے دہلی تک دن میں بھی اندھیرا ہوتا تھا، دھند کی ایک دبیز تہہ اس وقت بھی چھائی ہوتی تھی جب کوئی POLLUTIONنہیں تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین بلا کر پہلے مکمل تحقیق کی جائے پھر قانون سازی اور اس کےبعد موثر عملدرآمد۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ماحول اور ثقافت کے حوالے سے اچھا خاصا شعور رکھتی ہیں، سینئر وزیر مریم اورنگ زیب نے ماحولیات کی تعلیم بیروں ملک سے حاصل کر رکھی ہے اور وہ عرصہ دراز تک ماحولیات اور جنگلی حیات سے متعلق این جی اوز میں بھی کام کرتی رہی ہیں، اب یہ ان دونوں کا امتحان ہے کہ اسموگ کے بحران کو سنہری موقع جان کر اس کا حل نکالیں، ہو سکتا ہے کہ یہی وہ کام ہو جس سے انہیں سیاست میں بڑا نام مل جائے۔
اکثر لیڈر بحرانوں میں ہی پرورش پاتے ہیں، بحران سے نکالنے والے ہمیشہ کیلئے محبوب لیڈر بن جاتے ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے جو بھی قوانین بنائے جائیں ان میں اپوزیشن کو بہر صورت شامل کیا جائے۔ سول سوسائٹی کے ماہرین سے مشورہ لیا جائے، قانون سازی میں سب جماعتوں کی حمایت حاصل کرکے اسے غیر متنازع بنایا جائے۔کسی بھی حکمران کے طرز حکمرانی کی اصل آزمائش بحران اور جنگ میں ہوتی ہے۔ شہباز شریف وفاق جا کر تو پتھر کی طرح جامد ہوگئے ہیں۔
’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق وہ بڑے فیصلے نہیں کر رہے اس لئے یہ حقیر کالم نگار ان کی خبر بھی لیتا ہے لیکن جب ڈینگی بحران آیا تو شہباز شریف نے بطورِ وزیر اعلیٰ دن رات وقف کر دیا، منہ اندھیرے اٹھ کر اجلاس بلا لیتے، ہر گھر میں ٹیم چیک کرتی پانی کی ٹونٹی تو نہیں بہہ رہی، سری لنکا سے ٹیم منگوا کر ڈینگی کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ اس معاملے میں وہ مرد بحران ثابت ہوئے اور انہوں نے بالآخر ڈینگی کے دانت کھٹے کردیئے۔ ان کے اقدامات اس قدر مؤثر اور دیر پا ہیں کہ اب بھی کبھی کبھار ڈینگی کی ٹیم گھر گھر چیکنگ کر رہی ہوتی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو پاکستان واپس آتے ہی اپنی ترجیحی فہرست میں اسموگ کو شامل کرنا چاہیے، دن رات اس پر فوکس کرنا چاہیے اگر کل کو لندن کی طرح پنجاب میں بھی اسموگ سے اموات شروع ہو گئیں تو ان کا طرز حکمرانی چیلنج ہو جائے گا۔ اگرچہ انہوں نے اسموگ کے خاتمے کیلئے بہت سے اقدامات کئے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں اور ان اقدامات سے فی الحال سموگ میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔
صرف بیانات سے یہ خون آشام بلا ٹلنے والی نہیں ،اسے دو بدو لڑائی سے شکست دینا ہو گی۔ اگر مریم نواز اس جنگ کی سالار بن گئیں تو نہ صرف وہ اسموگ کو شکست دے دیں گی بلکہ ہوسکتا ہے ان کے سیاسی مخالفوں کو نیچا دکھانے کا یہی واحد حل ہو۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔