حالیہ دستاویزات حکومت کے اس دعویٰ کی تردید کرتی ہیں کہ کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ پروجیکٹ کے لیے لیز پر دی گئی تمام زمین غیر استعمال شدہ بنجر ہے۔
23 نومبر ، 2024
سرکاری حکام بار بار دعویٰ کر چکے ہیں کہ پنجاب میں کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ منصوبے کے لیے لیز پر دی جانے والی سرکاری زمین مکمل طور پر بنجر ہے، جسے بعد میں پاکستان کے غذائی تحفظ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے گا۔
یہ دعویٰ غلط ہے، دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں حال ہی میں مختص کی گئی کچھ زمین درحقیقت زرخیز ہے۔
گزشتہ برس فروری میں پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹجک پروجیکٹس نے پنجاب بورڈ آف ریونیو کو خط لکھا، جس میں اس وقت کی عبوری پنجاب حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ فوڈ سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے فوج کے کارپوریٹ فارمنگ منصوبے کے لیے صوبے میں ہزاروں ایکڑ ”بنجر غیر استعمال شدہ“ سرکاری زمین لیز پر دے۔
بعد میں یہ دستاویز پنجاب حکومت نے زمین کی منتقلی کی منظوری کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی۔
حال ہی میں، 9 اگست کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے کہا کہ پاکستان بھر میں 48 لاکھ ایکڑ”بنجر زمین“ کی نشاندہی کی گئی ہے، جسے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی ہدایت کے تحت فوج کے زیرانتظام کمپنی کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لیز پر دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا کہ مبینہ بنجر زمین کی ڈویلپمنٹ سے ملک میں کاشت کے رقبے میں اضافہ ہوگا۔
جبکہ ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بعد میں دی نیوز کو تصدیق کی کہ اس سرکاری زمین کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں واقع ہے۔
حالیہ دستاویزات حکومت کے اس دعوے کی تردید کرتی ہیں کہ کارپوریٹ فارمنگ منصوبے کے لیے لیز پر دی گئی تمام زمین بنجر ہے، پنجاب میں اس سرکاری زمین کا کچھ حصہ درحقیقت زرخیز ہے اور پہلے ہی زیر کاشت ہے۔
کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ منصوبہ گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت جاری ہے، جو پاک فوج اور حکومت کا ایک مشترکہ منصوبہ ہے۔
گزشتہ برس کے آخر میں، پنجاب کے محکمہ زراعت نے بورڈ آف ریونیو کو خط لکھا، جس میں ضلع پاکپتن کی تحصیل عارف والا میں 497 ایکڑ سرکاری اراضی کو فوج کے زیر انتظام کمپنی کو کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ کےلئے لیز پر دینے کی منظوری دی۔
جبکہ 20 فروری کی ایک اور سرکاری دستاویز سے تصدیق ہوتی ہے کہ جو سرکاری زمین منتقل کی جا رہی ہے وہ زرعی زمین ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ عارف والا میں 497 ایکڑ میں سے صرف 27 ایکڑ سڑکوں اور عمارتوں پر مشتمل ہے۔
دستاویز میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ یہ زمین 30 اپریل 2024 تک ربیع کی فصلوں کی کٹائی کے بعد پاک فوج کے حوالے کی جائے گی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زمین پہلے ہی زیر کاشت تھی۔
تحصیل عارفوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر میر رومان خلیل نے جیو فیکٹ چیک کو تصدیق کی کہ اس علاقے میں سوائے کچھ رہائشی حصوں کے ”زرعی فصلیں“ اگائی جاتی ہیں، انہوں نے کہا، “یہاں کوئی بنجر زمین نہیں ہے۔“
دو مقامی کسانوں نے بھی اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ علاقہ 3-ایل نہر کے پانی سے سیراب ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے فصلوں کی تصاویر جیو فیکٹ چیک کے ساتھ ثبوت کے طور پر شیئر کیں۔
فی الحال، پاکپتن کے کسانوں نے قانونی کارروائی کی ہے اور پنجاب حکومت کے سرکاری زمین کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لیز پر دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں میں درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان 1928 سے ریاست کی زمین پر کاشتکاری کر رہے ہیں۔
ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرام @geo_factcheck پر فالو کریں۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔