24 نومبر ، 2024
جو واقعہ میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ پیش آیا دل کو بہت دکھاتا ہے۔
وہ اعلیٰ تعلیم کے مقصد سے اسلام آباد گیا لیکن اچانک اس کی کال والد کو موصول ہوتی ہے جس میں وہ شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ اسلام آباد کی سیاسی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے۔
ہاسٹل انتظامیہ نے تمام غیرمقامی طلبہ کو ہاسٹل خالی کرنے کا حکم دیا ہے اور فوری طور پر کسی اور جگہ منتقل ہونے کو کہا گیا ہے۔ والد یہ سن کر پریشان ہوجاتے ہیں لیکن بھائی ایک محفوظ مقام پر منتقل ہو جاتا ہے اور فی الحال وہیں قیام پذیر ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ میرے بھائی کے لیے وسیلہ پیدا ہوگیا اور وہ محفوظ جگہ پہنچ گیا لیکن ان ہزاروں طلبہ کا کیا، جو صرف تعلیم یا روزگار کے لیے اسلام آباد آئے تھے اور اس طرح کی ہنگامی صورتحال میں کسی اور جگہ ٹھہرنے کا انتظام نہ کر سکے؟
وہ کہاں جائیں گے؟ کیا وہ اسٹیشنوں پر دن اور رات گزاریں گے یا اسلام آباد کی سڑکوں پر؟
سیاسی کشیدگی اپنی جگہ لیکن اس طرح ہاسٹلز اور دیگر پناہ گاہوں سے لوگوں کو محض اس بنیاد پر نکال دینا کہ حالات خراب ہیں یا سکیورٹی کا خدشہ ہے کہاں تک درست ہے؟ میرے بھائی کا تو انتظام ہو گیا لیکن ان لوگوں کا کیا جنہیں رہنے کی جگہ نہ ملی ہوگی، جو اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے گاڑیوں میں جگہ نہ پا سکے ہوں گے؟
یہ بہتر ہوتا کہ دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ دفعہ 144 پر مکمل عمل درآمد ہو رہا ہو۔ اس کے بعد انتظامیہ تحقیق کرتی کہ کون لوگ اسلام آباد میں موجود ہیں، کب اور کس مقصد کے لیے آئے ہیں؟ ان کی سفری تفصیلات اور موجودگی کی وجوہات کی بنیاد پر کوئی حتمی فیصلہ لیا جاتا لیکن افسوس اس طرح کی تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
میری شکایت نہ عمران خان سے ہے کہ بھائی کیوں یہ دھرنے کی کال دی گئی اور نہ کسی اور سیاسی جماعت یا شخصیت سے کہ تم ذمہ دار ہو اس درہم برہم نظام کے۔
میرا سوال صرف یہ ہے کہ عوام کا کیا قصور ہے جو بار بار ایسے حالات کی زد میں آتی ہے؟
اس بات کو سمجھیں، اسے فوقیت دیں کہ آپ کے ایک فیصلے سے ایک فرد نہیں بلکہ اس انفرادی فرد سے جڑا پورا گھر تکلیف میں آجاتا ہے، 99.9 فیصد فیصلے اپنے مفاد پرستی کو مدنظر رکھ کر کریں مگر ایک فیصلہ تو عوام دوست کرلیں۔
جو بھی حالات ہوں عوام کو سہولت فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے، قانون کی عملداری ضرور ہونی چاہیے لیکن ایسے اقدامات کے ساتھ جو عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر نہ کریں۔
یا شاید ہم خود ان دشواریوں کے ساتھ جینے کے عادی ہوگئے ہیں یا نہیں ہوئے تو ہو جائیں گے۔
بہت مثبت نیت سے لکھنا شروع کیا تھا مگر مایوسی پر اختتام کر رہا، وہ مایوسی جس کا ایک پاکستانی عادی ہوگیا ہے غرض اتنا کے اب اسے اس کا احساس بھی نہیں رہا۔ ایک بہتر کل، ایک ذمہ دار ریاست میں نہیں تو شاید میری نسلیں دیکھ سکیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔