02 دسمبر ، 2024
عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔جب سے تحریک انصاف کی حکومت گئی ہے اُس وقت سے جو بھی حکمت عملی اپنائی گئی یاجو بھی پالیسی بنائی گئی وہ تحریک انصاف پر ہی الٹی پڑی اور اُس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت میں فیصلہ سازی میں مشاورت کی بجائے عمران خان کا فیصلہ چلتا ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے ساتھیوں کے مشوروں سے زیادہ تحریک انصاف کے اُس سوشل میڈیا اور یوٹیوبرزکی بات سنتے ہیں جنہوں نے عمران خان کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
جب حکومت جانے لگی تو پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کے مشورے کے باوجود قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے گئے۔ بعد میں ایک بار پھر پارٹی رہنمائوں کی مشاورت کے برعکس پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اپنی ہی حکومتیں ختم کر دیں۔ فوج اور آرمی چیف کے خلاف بھی بہت سے رہنمائوں کے منع کرنے کے باوجود بیانیہ بنایا اور پھر ٹکرائو کی ایسی سیاست پر چل پڑےکہ جو نئے یعنی موجودہ آرمی چیف کے ساتھ بھی نہ صرف چلتی رہی بلکہ اس ٹکرائو میں اتنا اضافہ کر دیا کہ9مئی کا سانحہ ہو گیا۔
خود بھی احساس تھا، دوسرے ساتھی بھی سمجھاتے رہے کہ اب تو رک جانا چاہیے لیکن اپنے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے کچھ رہنمائوں کے اشتعال دلانے پر فوج سے ٹکرائو کی سیاست جاری رہی۔ اپنے لوگوں نے سمجھایا کہ سیاستدانوں سے بات چیت کرنی چاہیے لیکن یہاں بھی یہ کہا کہ بات چیت بھی اُن سے کرنی ہے جن سے ٹکر لی جا رہی ہے۔ اور یوں نہ سیاسی طور پر کوئی فائدہ ہوا نہ اپنے آپ کو جیل سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ جیتا ہوا الیکشن بھی ہار گئے۔ اس کے باوجود پالیسی ٹکرائو والی ہی رہی۔ اس دوران ساتھیوں نے پھر سمجھایا کہ فوج سے لڑائی ختم کریں، اپنے سوشل میڈیا کو کنٹرول کریں، باہر بیٹھے ہوئے رہنمائوں اور یوٹیوبرز کی مت سنیں پر پھر بھی رویہ ٹکرائو والا ہی رہا۔ احتجاج، احتجاج اور احتجاج، اس کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔ ہر بار بلکہ بار بار کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کا سمندر نکلے اور فوج کو مجبور کر دے کہ وہ وہی سب کچھ مانے جو عمران خان چاہتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر انقلاب لانے والے گھروں سے نکلنے کیلئے تیار نہیں اور اس وجہ سے کوئی احتجاج کامیاب نہیں ہوتا۔
احتجاج کرنے سے پہلے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور گزشتہ چند مہینوں سے تو بار بار خیبر پختون خوا جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں سے پنجاب اور اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں تشدد پر ختم ہوتا ہے۔ ابھی جو حال ہی میں اسلام آباد کی طرف مارچ کیا گیا اُس کی تاریخ کا اعلان عمران خان نے بغیر کسی رہنما سے مشاورت کے کیا۔ پی ٹی آئی کے اکثرسینئر رہنما کا نہ صرف یہ کہنا تھا کہ مارچ کی تاریخ (24 نومبر) بہت جلد دے دی گئی بلکہ اس سے ٹکرائو بڑھے گا۔ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور بھی اس مارچ کے حق میں نہیں تھے، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر، شبلی فراز بھی اس کے حق میں نہ تھے۔
جب اسلام ہائی کورٹ نے اس مارچ کی اجازت نہ دی تو پھر ذرائع کے مطابق سلمان اکرم راجہ کی بھی یہ رائے تھی کہ یہ مارچ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں عمران خان سے جیل میں ملاقات کر کے انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اُنہیں اُس دوران ملاقات کی اجازت نہ ملی۔ دوسری طرف پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی مارچ کے خلاف رائے ہونے کے باوجوداُسے اس فیصلے کا اختیار نہ تھا کہ وہ خود سے کوئی دوسرا فیصلہ کرسکے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے یوٹیوبرز اور رہنما اس مارچ کے نتیجے میں ممکنہ انقلاب کی نوید سناتے رہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر یہ کوشش بھی ہوئی کہ بشریٰ بی بی سے فیصلہ کروا لیا جائے لیکن اُنہوں نے ضد باندھ لی کہ مارچ ہو گا اور ڈی چوک ہی جانا ہے۔
مارچ جب چل پڑا تو چند دن پہلے کے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطوں کے نتیجے میں علی امین گنڈاپور دور روز عمران خان سے ملتے رہے اور اُنہیں سمجھایا کہ سنگجانی پر مارچ کو روک دیں۔ اس بار عمران خان تو مان گئے پر بشریٰ بی بی نہ مانیں اور یوں ایک بار پھر تحریک انصاف کی سیاسی چال نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ اس کو بہت بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جسے مٹانے کیلئے یہ پروپیگنڈا پہلے سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے یو ٹیوبرز کے ذریعے کیا گیا کہ سینکڑوں مظاہرین کو شہید کر دیا گیا، یہ بات رہنمائوں نے کرنا شروع کر دی، کسی نے کہا کہ سینکڑوں شہید ہو گئے، کسی نے 270، کسی نے 150،کسی نے40-50افراد کے شہید ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر بعد میں کہنے لگے کہ آٹھ ورکرز کی شہادت کنفرم ہو چکی ہے جسکے بارے میں حکومت تحریک انصاف سے تفصیلات طلب کر رہی ہے۔ رینجرز اور پولیس کے بھی چار پانچ اہلکار شہید ہوئے۔ کسی طرف کا کوئی ایک بھی فرد شہید ہو ا ہے تویہ بہت بڑا نقصان ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ تحریک انصاف اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لے۔اگروہ سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے شرپسند رہنمائوں اور یوٹیوبرز کے کہنے پر چلتی رہی تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اب توکچھ سبق سیکھنا چاہیے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔