03 دسمبر ، 2024
سینئر حکومتی وزرا نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے مظاہرین کی کسی بھی ہلاکت کی تردید کی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسپتالوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے بعد کوئی ڈیڈ باڈی نہیں ملی۔
تاہم دستاویزی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔
28 نومبر کو ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ اور وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے اس بات کی تردید کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لائیو ایمونیشن استعمال کیا یا پی ٹی آئی کا کوئی سپورٹر مارا گیا۔
عطا تارڑ نے الجزیرہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ”[حکومت کے] محکمہ صحت نے دو بیانات جاری کیے ہیں، ایک Polyclinic اسپتال سے اور دوسرا PMIS (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) اسپتال سے، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں کوئی ڈیڈ باڈیز نہیں ملی ہیں، سوشل میڈیا پر ایک فیک لسٹ گردش کر رہی تھی، انہوں [اسپتالوں] نے اس فہرست کو بھی جعلی قرار دے دیا، ان [اسپتالوں] کو کوئی لاشیں موصول نہیں ہوئیں۔“
فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک اسپتال اور پمز دونوں وفاقی دارالحکومت کے دو بڑے سرکاری اسپتال ہیں۔
بعد ازاں ،عطا تارڑ نے بی بی سی کے نامہ نگار کے ایک اور سوال کے جواب میں اپنا دعویٰ دہرایا: ”پولی کلینک اور پمز دونوں نے کسی بھی لاش یا گولی لگنے سے زخمی ہونے والےکو وصول کرنے کی تردید کی ہے، اس کے علاوہ کوئی لائیو ایمونیشن استعمال نہیں کیا گیا، مجھے اس کی تصدیق کرنے دیں۔“
اس پریس کانفرس کویہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
عطا تارڑ نے 30 نومبر کو ڈیڈ باڈیز کا کوئی ثبوت مانگتے ہوئے دعویٰ دہرایا۔
دونوں اسپتالوں نے بھی 27 نومبر کو اپنے اپنے بیانات میں اس بات کو دہرایا اور ہلاکتوں کی رپورٹس کو ”بے بنیاد“ قرار دیتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے گولی لگنے سے زخمی ہونے والوں کا علاج کیا یا لاشیں وصول کیں۔
پمز ہسپتال نے اپنے بیان میں مؤقف اختیار کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 66 اہلکار اور 36 عام شہری پمز ایمرجنسی میں لائے گئے اور ان میں سے اکثریت کو معمولی زخم آنے پر ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا، جبکہ ان میں سے چند ابھی بھی مزید علاج کے لیے داخل ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ”سوشل میڈیا پر مظاہرین کی ہلاکتوں / زخموں کی نوعیت کے حوالے سےگردش کرنے والی خبریںبے بنیاد ہیں۔ “
اسی طرح اسی دن فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک نے بھی تردید جاری کی۔ اس میں کہا گیا کہ ” فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک انتظامیہ گولیوں کے زخموں/گولیوں/گرینیڈ سے ہسپتالوں میں لاشوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کی تردید کرتی ہے، میڈیا پر گردش کرنے والی اس اسپتال سے متعلق ایسی غیر تصدیق شدہ خبروں کو جعلی سمجھا جائے۔“
دستاویزی شواہد اور متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے شیئر کی گئی تفصیلات ظاہرکرتی ہیں کہ حکام کے یہ دعوے غلط ہیں۔
متاثرین میں سے ایک 31 سالہ صدر علی تھا جس کا تعلق خیبرپختونخوا کےضلع مردان سے تھا۔ جیو فیکٹ چیک نے دونوں، ان کی علاج کی پرچی اور پمزاسپتال کی طرف سے جاری کردہ ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ دیکھے ہیں۔
صدر علی کو 26 نومبر کی رات8 بج کر 17 منٹ پر اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور نیچے دیے گئے اس کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق 8بج کر 30 منٹ پر اسے مردہ قرار دیا گیا تھا۔ علاج کی پرچی اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ دونوں ہی صدر علی کی چوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں جو فائر آرم کے نتیجے میں ہوئی تھی۔
ان کی فیملی نے انہیں پی ٹی آئی کا سپورٹر بتایا ہے۔
ایک اور ڈیڈ باڈی جس کا ریکارڈ جیو فیکٹ چیک نے حاصل کیا، وہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ مبین اورنگزیب کی ہے جسے 26 نومبر کی شام 5 بج کر 12 منٹ پر فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک اسپتال نے مردہ قرار دیا تھا۔
نیچے دیے گئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق مبین اورنگ زیب کی موت کی وجہ بندوق کی گولی لگنے سے درج کی گئی ہے۔ ان کے اہل خانہ نے بھی انہیں پی ٹی آئی کا سپورٹر بتایا ہے۔
جاں بحق ہونے والا تیسرا فرد مری سے تعلق رکھنے والا 20 سالہ انیس شہزاد ہے جس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی 26 نومبر کو فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک اسپتال نے جاری کیا تھا۔ انیس شہزاد کو شام 5 بجے مردہ قرار دیا گیا۔ اس کے زخمی ہونے کی شناخت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ ان کے خاندان کے مطابق وہ پی ٹی آئی کا سپورٹر تھا۔
26 نومبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں جاں بحق ہونے والے چوتھے مقتول کی شناخت عمران خان عرف عمران عباسی کے نام سے ہوئی۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی موت کی وجہ ”ان نیچرل“ تھی۔
یہ چاروں نام پی ٹی آئی کی 12 مبینہ ہلاکتوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ نام مقامی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعہ رپورٹ کی گئی تدفین کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ خاندان کے افراد کی طرف سے جیو فیکٹ چیک کے ساتھ شیئر کی گئی تدفین کی تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ بھی مطابقت رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، 28 نومبر کو وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے ایک مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے 5 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
راناثناء اللہ نے پروگرام کے دوران پی ٹی آئی کے کم از کم پانچ کارکنوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ”آفیشل نمبرجو ہے وہ تقریباً کوئی چار پانچ کے متعلق تو تصدیق اس طرح سے بھی ہوتی ہے کہ تین جگہ پہ ڈیڈ باڈیز گئی ہیںاور ان کے جنازے ہوئے ہیں جو رپورٹس ہیں، کوئی دو تین یا دو اور ہو سکتے ہیں۔ “
جیو فیکٹ چیک نے دونوں اسپتالوں کے ایک درجن سے زائد ڈاکٹروں، نرسوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ سےبھی رابطہ کیا، جنہوں نے یا تو اموات سے انکار کیا یا سرکاری حکام کے دباؤ کا دعویٰ کرتے ہوئے بات کرنے سے انکار کردیا۔
ہمیںX (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرام@geo_factcheck پر فالو کریں۔ اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔
نوٹ: اس رپورٹ کے پہلے ورژن میں 3 اموات ثابت ہوئی تھیں۔ 3 دسمبر کو جیو فیکٹ چیک نے اس فہرست میں ایک اور متاثرہ عمران عباسی کا اضافہ کیا۔ اس آپریشن کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے جیسے جیسے مزید کنفرمیشنز ملتی رہیں گی، جیو فیکٹ چیک اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کرتا رہے گا۔