Time 08 دسمبر ، 2024
دنیا

شام میں حکومت مخالف باغی گروہ 'حیات تحریر الشام'کے سربراہ ابو محمد الجولانی کون ہیں؟

شام میں حکومت مخالف باغی گروہ حیات تحریر الشامکے سربراہ ابو محمد  الجولانی کون ہیں؟
فوٹو: اے ایف پی

شام کے صدر بشارالاسد کی فوج کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں نے گزشتہ کئی دنوں کے اندر اہم شہروں پر بھی قبضہ کر لیا اور اب ان کی دارالحکومت دمشق کی جانب پیش قدمی تیزی سے جاری ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق شامی باغی گروہ حیات تحریر الشام کے جنگجو وسطی شہر حمص پر بھی قابض ہوچکے ہیں اور شامی فوج شہر چھوڑ کر جاچکی ہے۔

ماضی میں القاعدہ سے منسلک اس شامی باغی گروپ نے کچھ دن قبل اپنی کارروائیاں تیز کرتےہوئے پہلے شام کے اہم اور تاریخی شہر حلب پر قبضہ کیا اور اس کے بعد حیات تحریر الشام کے جنگجو حماہ شہر میں داخل ہوئے اور صدربشارالاسد کی فوج کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا۔

رپورٹس کے مطابق ان تمام کارروائیوں کی قیادت ابو محمد الجولانی نے کی جو حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں، یہ  شام میں سب سے طاقتور مسلح باغی گروہ ہے۔

شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی گروہ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے گزشتہ دنوں یہ واضح اعلان کیا تھا کہ شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے۔

 ابو محمد الجولانی کون ہیں؟

شام میں حکومت مخالف باغی گروہ حیات تحریر الشامکے سربراہ ابو محمد  الجولانی کون ہیں؟
ابو محمد الجولان امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے/ فوٹو: سی این این 

ابو محمد الجولانی شام کی مسلح اپوزیشن تنظیم حیات تحریر الشام کے سربراہ ہیں۔ ان کا اصل نام احمد حسین الشرا ہے اور وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک پیٹرولیم انجینئر تھے اور ان کا خاندان 1989 میں شام واپس آیا جہاں وہ دمشق کے قریب آباد ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق دمشق میں گزرے وقت کے بارے میں ان کے حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن یہ معلومات ہیں کہ 2003 میں وہ عراق منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اسی سال امریکا کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے طور پر القاعدہ میں شمولیت اختیار کی۔

بعد ازاں ابو محمد الجولانی کو 2006 میں عراق میں امریکی افواج نے گرفتار کیا اور 5 سال تک قید میں رکھا۔ رہائی کے بعد، الجولانی کو شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم 'النصرہ فرنٹ' قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس نے خاص طور پر ادلب میں مخالف قوتوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنا اثر بڑھایا۔

رپورٹس کے مطابق ابتدائی سالوں میں الجولانی نے ابو بکر البغدادی کے ساتھ کام کیا، جو عراق میں القاعدہ کے  اسلامی ریاست کے سربراہ تھے جو بعد میں داعش کے نام سے جانی جانے لگی۔

اپریل 2013 میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کی تنظیم القاعدہ سے تعلق ختم کر رہی ہے اور شام میں پھیل رہی ہے، جس سے النصرہ فرنٹ کو ایک نئی تنظیم داعش میں ضم کر دیا گیا۔

تاہم الجولانی نے اس تبدیلی کو مسترد کر دیا اور القاعدہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھی۔

2014 میں اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو میں الجولانی نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ شام کو اسلامی قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے اور ملک کی اقلیتوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

تاہم وقت گزرنے کےساتھ الجولانی اس منصوبے سے دور ہوتے نظر آئے اور اس کی بجائے وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے گروپ کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرتے دکھائی دیے۔

پھر جولائی 2016 میں شامی شہر حلب حکومت کے قبضے میں چلا گیا اور وہاں موجود مسلح گروہ ادلب کا رخ کرنے لگے، اس کے بعد الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروپ کا نام بدل کر  جبہت فتح الشام کر دیا گیا ہے۔

2017 کے اوائل تک ہزاروں جنگجوحلب سے فرار ہو کر ادلب پہنچے اور الجولانی نے اعلان کیا کہ ان گروپوں میں سے کئی کو اپنے گروپ کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے  اور اسے حیات تحریر الشام کا نام دیا گیا۔

باغی گروہ حیات تحریر الشام کا واضح مقصد شام کو صدر بشارالاسد کی آمرانہ حکومت سے آزاد کرانا، ملک سے ایرانی ملیشیاؤں کو نکالنا،ایک  اسلامی قانون کے تحت ریاست قائم کرنا ہے۔

گزشتہ دنوں ابو محمد الجولانی نے شام کے ایک نامعلوم مقام سے امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اس حکومت کی شکست کے بیج ہمیشہ سے اس کے اندر تھے، ایران نے اس حکومت کو بحال کرنے اور اس کے لیے مزید وقت لینے کوشش کی جب کہ روس نے بھی اسے سہارا دینے کی کوششیں کی مگر حقیقت یہی ہے کہ اس حکومت کی موت ہوچکی ہے۔

باغی لیڈر نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے جیسے ہی موجودہ حکومت گر ے گی تو غیر ملکی افواج کی شام میں ضرورت نہیں رہے گی۔ 

مزید خبریں :