09 دسمبر ، 2024
شام میں اسد خاندان کے پچاس سے زائد سالوں پر محیط دور حکمرانی کا تب خاتمہ ہو گیا جب اپوزیشن فورسز نے ایک بڑی کارروائی کے بعد دارالحکومت دمشق پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
بشار الاسد حکومت کے خلاف اپوزیشن کے باغیوں کی حالیہ کارروائیوں کے آغاز سے اسد حکومت کے خاتمے تک کب، کیا اور کیسے ہوا اس کا مختصر احوال کچھ اس طرح ہے۔
اتوار کی صبح دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد حیات تحریر الشام کی اپوزیشن فورسز نے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے شام کو آزاد قرار دے دیا۔
رپورٹس کے مطابق باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد سابق صدر بشار الاسد دمشق سے فرار ہو گئے، جس کے بعد افواہیں سامنے آئیں کہ ان کا جہاز کریش ہو گیا اور ممکنہ طور پر بشار الاسد اپنے خاندان کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے۔
تاہم بعد میں ان افواہوں نے دم توڑ دیا جب روسی ذرائع سے یہ خبر سامنے آئی کہ بشار الاسد ماسکو میں ہیں اور روس نے انہیں بشمول اہل خانہ سیاسی پناہ دی ہے۔
شام میں الاسد خاندان کی 53 سالہ حکمرانی کے اختتام کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا جا رہا ہے اور اسے 14 سال قبل عوامی احتجاج سے شروع ہونے والی ایک خونریز خانہ جنگی کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔
شام میں اپوزیشن جنگجوؤں کے ایک اتحاد نے 27 نومبر کو حکومت کی حامی فورسز کے خلاف ایک بڑی کارروائی کا آغاز کیا، اس کارروائی کے تحت پہلا حملہ ادلب اور حلب کے درمیان فرنٹ لائن پر کیا گیا، اپوزیشن فورسز تین دن کے اندر شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
اسد حکومت کے خلاف اس مہم کی قیادت حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کر رہے تھے جس میں ان کے ساتھ نیشنل فرنٹ فار لبریشن، احرار الشام، جیش العزہ اور نور الدین الزنکی تحریک سمیت اپوزیشن کے دیگر گروہ بھی شامل تھے جبکہ ترکی کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی کے گروپس بھی اس کارروائی کا حصہ رہے۔
اس سوال کے جواب میں عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ شاید پورا شام اپوزیشن کے قبضے میں آچکا ہے تاہم اپوزیشن فورسز ابھی تک الاسد کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں لتاکیہ اور طرطوس میں داخل نہیں ہوئی ہیں لیکن وہ حماہ، حمص اور درعا جیسے اہم شہروں پر قابض ہو چکے ہیں جو 2011 کے انقلاب کا نقطہ آغاز تھا۔
شامی فوج قنیطرا اور سویدہ میں بھی پیچھے ہٹ چکی ہے لیکن ان کی کوئی مؤثر مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی۔
عرب میڈیا کے مطابق شام کی معیشت پہلے ہی بدترین حالت میں تھی اور عوام کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا تھا، جس سے حکومت غیر مقبول ہوچکی تھی، فوج اور پولیس اہلکار اپنی پوسٹیں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور الاسد حکومت کو فوجی اور عوامی حمایت دونوں کی کمی کا سامنا تھا۔
روسی افواج یوکرین کی جنگ میں الجھی ہوئی ہیں اور ایران و حزب اللہ اسرائیلی حملوں سے متاثر ہیں جس کے باعث شامی فوج کو مدد نہ مل سکی۔
عرب میڈیا کے مطابق بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے باوجود پوری حکومت فرار نہیں ہوئی ہے، شامی وزیراعظم محمد غازی الجلالی دمشق میں موجود ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے امور جاری رکھنے کیلئے موجود رہیں گے۔
باغیوں کے کنٹرول سنبھالنے اور بشار الاسد کے ملک سے فرار کے بعد دمشق، حمص اور دیگر شہروں میں جشن کا سماں تھا۔ لوگوں نے انقلابی پرچم لہرائے، ٹینکوں پر چڑھ کر خوشی کا اظہار کیا اور حافظ الاسد کے مجسمے گرا دیے۔ مساجد میں دعائیں کی گئیں اور عوامی مقامات پر لوگ جشن مناتے اور نعرے لگاتے رہے۔
اپوزیشن جنگجوؤں نے حکومت کے زیرانتظام جیلوں کے دروازے کھول دیے اور ضمیر کے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ حیات تحریر الشام نے اعلان کیا کہ صدنایا جیل میں "ظلم کے دور کا خاتمہ" ہو گیا ہے۔
شام میں بشار الاسد حکومت کا تو خاتمہ ہو گیا تاہم اب آگے کیا ہوگا یہ ابھی واضح نہیں ہے، وزیر اعظم الجلالی نے کہا ہے کہ ان کی کابینہ عبوری حکومت کے قیام کیلئے اپوزیشن کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہے، حیات تحریر الشام کے سربراہ الجولانی نے کہا کہ عوامی ادارے عبوری مدت کے دوران وزیر اعظم کے زیر نگرانی رہیں گے۔
عرب میڈیا کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تمام فریق تعاون کریں تو شام کیلئے بہتر مستقبل ممکن ہے۔