10 دسمبر ، 2024
شام میں سابق صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کے دور حکومت میں جیلوں اور خفیہ سیلز میں قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق شام میں تدمر اور صیدنایا جیلیں اپنی ظلم کی داستانوں کے لیے بدنام رہی ہیں، ان دو جیلوں سمیت سیکڑوں خفیہ سیلز سے حالیہ بغاوت میں ایسے ہزاروں قیدیوں کو رہا کرایا گیا جن کے ساتھ کئی سال سےغیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کے دور میں 100 سے زائد جیلیں موجود تھیں جن میں خفیہ سیلز بھی شامل تھے، ان جیلوں میں لوگوں کو پھانسیاں اور اذیتیں دے کر ہلاک کیا گیا۔
اپوزیشن گروپوں نے دمشق، حما اور حلب کی مرکزی جیلوں سے قیدیوں کو آزاد کرایا، صیدنایا جیل سے 20 ہزار قیدیوں کو آزاد کروایا گیا جبکہ زیر زمین جیلوں میں مزید قیدیوں کی تلاش جاری ہے۔
شامی شہری دفاع وائٹ ہیلمٹس نے خفیہ جیلوں کا پتا دینے والے افراد کے لیے 5 ہزار ڈالر انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ 2014 میں سیزر نامی حکومتی منحرف شام سے فرار ہوا اور ایسی ہزاروں تصاویر دنیا کے سامنے لایا جن میں جیلوں میں قیدیوں پر کیے جانے والے مظالم دکھائے گئے تھے۔
شام میں 2011 سے 2024 کے درمیان ایک لاکھ57 ہزار 634 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 5 ہزار 274 بچے اور 10ہزار 221 خواتین شامل تھیں۔
بھوک و پیاس کا شکار اور طبی سہولیات سے محروم قیدیوں نےکوڑوں، بجلی کے جھٹکوں اور ’جرمن چیئر‘ جیسے مظالم سہے جس پر بٹھا کر قیدیوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی جاتی تھی۔
اذیت دینے کے ایک دوسرے طریقے کو ’فلائنگ کارپٹ‘ کہا جاتا تھا جس میں قیدیوں کو تہہ ہونے والے لکڑی کے تختوں پر لٹا دیا جاتا اور جیل کے گارڈز تختوں کو تہہ کردیتے یہاں تک کہ قیدی کے گھٹنے اور سینہ ایک ساتھ جُڑ جاتے جس سے شدید کمر درد ہوتا۔
اذیت دینے کے تیسرے طریقے کے طور پر جیل کے گارڈز قیدیوں کو ایک سیڑھی کے ساتھ باندھتے اور پھر سیڑھی کو دھکا دے کر گرادیتے، اس طرح قیدی کو بار بار اس کی کمر کے بل زمین پر گرایا جاتا۔
عرب میڈیا کے مطابق حکومت نے لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور اقتدار قائم رکھنے کے لیے بے رحمی سے قیدیوں کو اذیت دی جس سے یہ جیلیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی علامت بن گئیں۔