Time 15 دسمبر ، 2024
پاکستان

یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں کتنے پاکستانی جاں بحق اور لاپتہ ہوئے؟ دفتر خارجہ نے بتا دیا

یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں کتنے پاکستانی جاں بحق اور لاپتہ ہوئے؟ دفتر خارجہ نے بتا دیا
سفارتی اہلکارجزیرہ کریٹ پہنچ چکےہیں تاکہ بچائے گئے پاکستانیوں سےملاقات کرکے مددفراہم کریں، ترجمان دفتر خارجہ/ فائل فوٹو 

اسلام آباد: دفتر خارجہ نے یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ایک پاکستانی شہری کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ 

 ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یونان کےجزیرہ کریٹ کے جنوب میں گزشتہ روزکشتی الٹنےکا واقعہ پیش آیا جس میں ایک پاکستانی کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ  کشتی الٹنےکے واقعےمیں بچائےگئے افراد میں سے 47 پاکستانی ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس مرحلے پر پاکستانی شہریوں میں سے دیگر جاں بحق یا لاپتہ افراد کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکتے، ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانہ ہیلینک کوسٹ گارڈ اورچانیاکوسٹ گارڈ سے رابطےمیں ہے، ہیلینک کوسٹ گارڈ اور چانیا کوسٹ گارڈ سرچ اور ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔ 

ترجمان کا مزید بتانا ہے کہ سفارتی اہلکار جزیرہ کریٹ پہنچ چکےہیں تاکہ بچائے گئے پاکستانیوں سے ملاقات کرکے انہیں مدد فراہم کی جا سکے جبکہ وزارت خارجہ نے لاپتہ افراد کی معلومات دینے کے لیے ایک نمبر (00306943850188)  بھی جاری کیا ہے۔ 

صدر مملکت اور وزیراعظم کا اظہار افسوس

دوسری جانب صدر مملکت آصف علی زرداری نے یونان کے قریب کشتی حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ قبیح عمل ہے جس کے نتیجے میں لوگ اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔

صدر مملکت نے انسانی اسمگلنگ کے تدارک کے لیے اقدامات تیزکرنے پر زور دیتے ہوئے جاں بحق افرادکے لواحقین کےساتھ اظہارتعزیت کیا اور اہلخانہ کے لیے صبرجمیل کی دعا کی۔ 

 وزیراعظم شہبازشریف نے  بھی یونان میں کشتی الٹنے کا واقعے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر اظہارافسوس کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے باعث ہر سال کئی افراد کی جانیں جاتی ہیں  اور کئی گھر اجڑ جاتے ہیں، انسانی اسمگلنگ مافیاغریب عوام کو جھوٹےخواب دکھاکر ان سے پیسے بٹورتا ہے۔ 

وزیراعظم نے وزیرداخلہ محسن نقوی کو واقعےکی انکوائری رپورٹ جلد پیش کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں ملوث افرادکی شناخت کرکے انہیں سخت سزائیں دی جائیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیےجائیں۔

مزید خبریں :