Time 17 دسمبر ، 2024
پاکستان

مدارس بل میں کوئی ترمیم قبول نہیں، بات نہ مانی گئی تو فیصلہ میدان میں ہوگا: فضل الرحمان

مدارس بل میں کوئی ترمیم قبول نہیں، بات نہ مانی گئی تو فیصلہ میدان میں ہوگا: فضل الرحمان
دینی مدارس کا نصاب قبول نہ کرنا بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت ہے، ان کو بین الاقوامی سپورٹ مل رہی ہے: جے یو آئی سربراہ کا ایوان میں اظہار خیال/ اسکرین گریب

اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ  مدارس بل اب ایکٹ بن چکا ہے  اب ہم کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے اور یہ بات نہ مانی گئی تو پھر ایوان کی بجائے میدان میں فیصلہ ہوگا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ مدارس بل اب ایکٹ بن چکا ہے اور اب اگر بل کو ایکٹ تسلیم کیے بغیر دوبارہ منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ایک غلط روایت کیوں ڈالی جارہی ہے، اس طرح تو آئین ہی ختم ہوجائے گا، 28 اکتوبر کو صدر مملکت نے بل پر اعتراض کیا اور اسپیکر نے قلمی غلطی قرار دے کر تصحیح کی اور بل واپس ایوان صدر بھیجا، ایک اعتراض کے بعد صدر مملکت دستخط نہیں کرتے تو 10 دن بعد بل ایکٹ بن جاتا ہے، اسپیکر نے انٹرویو میں کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق بل ایکٹ بن چکا ہے، بحث اس بات پر ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے تو گزٹ نوٹی فکیشن کیوں نہیں ہورہا۔ 

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ سابق صدر عارف علوی نے ایک بل پر دستخط نہیں کیا تو بل ایکٹ بن گیا،  یہ ایک نظیر بن چکی ہے اب صدر کو اختیار حاصل نہیں، اگر صدر 10 دن کے اندر دستخط نہیں کرتے تو قانون بن جاتا ہے۔ 

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہم ایوان اور آئین کے استحقاق کی جنگ لڑ رہے ہیں کوشش یہ ہے کہ ہم افہام و تفہیم سے معاملات حل کریں لیکن ہمیں کہا جاتا ہے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف ناراض ہوجائیں گے، کیا ہماری قانون سازی غیروں کی ہدایت اور رضامندی سے وابستہ ہوگی؟ کیا ہم آزاد ملک نہیں ہیں؟ اگر ہم غلام ہیں تو ہمیں بتایا جائے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکی کانگریس میں عمران خان کے حق میں قرارداد پاس کی جاتی ہے تو کہتے ہیں پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے جو عمران خان کے حوالے سے بات ہو کیا وہی صرف مداخلت ہے یہ سب مداخلت نہیں کیا؟ 

جے یو آئی امیر نے کہا کہ دینی مدارس نے 24 سال ثابت کردکھایا کہ ہم آئین و قانون اور حکومت کےساتھ ہیں تو پھر ہمارا امتحان کیوں لیا جارہا ہے؟ ہم نے تو جدید علوم سےکبھی انکار نہیں کیا، میں تو دینی علوم اور عصری علوم میں فرق تسلیم نہیں کرتا،  مدارس کے بچوں نے آپ کے بورڈز میں امتحانات میں پوزیشن لیں۔ 

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کو پامال نا کیاجائے، بہت سارے ادارے ہیں آپ نے مدارس میں ہی تقسیم کیوں کی؟ مدارس میں تقسیم کیا اس لیے کی کہ علما آپس میں لڑیں؟ تو ہم نہیں لڑیں گے، تنظیمات مدارس نے مؤقف دے دیاہے کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ دینی مدرسے کے نصاب کو قبول نہ کرنا بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت ہے، اب اس حوالے سے ان کو بین الاقوامی سپورٹ مل رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ آپ رجسٹریشن نہ کریں پھر بھی مدرسہ زندہ رہے گا، بینک اکاؤنٹ نہ کھولیں پھر بھی پیسے آئیں گے ، پہلے ہم نے اپنی جماعت کا مؤقف دیا اب یہ تنظیمات مدارس کا مؤقف ہے ، ہم کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے، بعد میں کوئی تجویز آئی تو اس پر بات کرسکتے ہیں ، جان بوجھ کر حالات کو خراب نہ کریں، یہ بات نہ مانی گئی تو پھر ایوان کی بجائے میدان میں فیصلہ ہوگا۔

مزید خبریں :