20 دسمبر ، 2024
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کی سماعت کے دوران وزارت خارجہ کے نمائندے نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ سے متعلق امریکی صدر کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں نمائندہ وزارت خارجہ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وکیل درخواست گزار عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ امریکا خودمختار ملک ہے ، ڈاکٹر فوزیہ کا ویزا مستردکرسکتا ہے، امریکا وزیراعظم کاویزا بھی مستردکرسکتا ہے مگر معاملات کو سفارتی سطح پر لے جانا ہوتا ہے۔
اس پر وکیل وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ امریکا میں پاکستانی مشن نے وفد کے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے انتظامات مکمل کرلیے تھے، اس پر جسٹس اسحاق نے عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ دستاویزات کے مطابق وفد تاخیر سے پہنچا مگر آپ کا سفیر کہاں تھا؟ ایسے معاملات کو ہمیشہ سفیر دیکھتے ہیں۔
دوران سماعت ڈاکٹر عافیہ کی بہن نے کہا کہ جب ایک ملک کاچیف ایگزیکٹو دوسرے ملک کے ایگزیکٹو کو خط لکھے تو جواب لازمی آتا ہے، اس پر نمائندہ وزارت خارجہ نے جواب دیا کہ وزیراعظم پاکستان کے امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔
جسٹس اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ ملک کے ایگزیکٹو نےخط لکھا اور اس کا جواب نہیں آیا، اس کوکیا سمجھیں؟ امریکا میں پاکستانی سفیرکے وفدکو جو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کرنی چاہیے تھی۔
عدالت نے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی سزا معافی کی درخواست سے لے کر اب تک وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے دوروں کی تفصیلات طلب کرلیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے احکامات واپس لینے کی استدعا کی۔
عدالت نے وزارت خارجہ سے عافیہ صدیقی کےامریکی وکیل کےڈیکلریشن پررپورٹ بھی طلب کی اور وزارت خارجہ کو معاملات کو سفارتی سطح پر دیکھنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔