فیکٹ چیک: سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین سے متعلق خوف و ہراس پھیلانے والی افواہوں کی حقیقت

پولیو ویکسین ڈراپس کے بارے میں جھوٹے دعوے سوشل میڈیا پر پھیل رہے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی ویڈیوز اور پیغامات وائرل ہو رہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پولیو ویکسین بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں 2 وائرل ویڈیوز میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بچے پولیو کے قطرے پلانے کے بعد بیمار ہو گئے اور انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑاجبکہ واٹس ایپ پر گردش کرنے والے ایک پیغام نے اورل پولیو ویکسین (OPV) کی حفاظت کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

 ان دعوؤں نے والدین میں وسیع پیمانے پر خوف و ہراس اور الجھن پیدا کر دی ہے، ان خدشات کو دور کرنے کے لیے، ہم نے ان دعوؤں کی حقیقت جانچنے کے لیے تحقیقات کیں۔

دعویٰ

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں الزام لگایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں بچے پولیو ویکسین لینے کے بعد بیمار ہو گئے اور انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔

9 دسمبر کو X (سابقہ ٹوئٹر) کے ایک صارف نے دو مختصر ویڈیوز پوسٹ کیں، جن میں مبینہ طور پر خیبر ضلع میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے بعد بیمار ہوتے دکھایا گیا۔ پوسٹ میں ویکسین کے معیار پر سوال اٹھایا گیا۔

فیکٹ چیک: سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین سے متعلق خوف و ہراس پھیلانے والی افواہوں کی حقیقت

حقیقت: یہ دعویٰ غلط کہ بچے پولیو ویکسین کی وجہ سے بیمار ہوئے۔ اصل میں، ویڈیو میں دکھائے گئے بچے نہار منہ پیٹ کے کیڑے مارنے والی گولیاں لینے کے بعد بیمار ہوئے، نہ کہ پولیو کے قطرے پلانے کے بعد۔ اس کی تصدیق سرکاری حکام اور ایک صحافی نے کی ہے۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے آفیسر تعلقات عامہ عطا اللہ خان نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے نومبر میں کیڑے مار گولیوں کی مہم چلائی تھی۔ ویڈیو میں دکھائے گئے بچوں کا تعلق ضلع خیبر کے علاقے جمرود سے تھا، انہوں نے ناشتے کے بغیر کیڑے مار گولیاں کھائیں، جس کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے۔

عطا اللہ خان نے خیبر پختونخوا کے ہیلتھ ایڈوائزر احتشام علی کا 4 نومبر کا ایک بیان بھی شیئر کیا، جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ کئی بچے خالی پیٹ کیڑے مار گولیاں کھانے کے بعد بیمار ہو گئے تھے۔ اس کی تصدیق ریسکیو 1122 خیبر پختونخوا کے ترجمان بلال احمد فیضی نے بھی کی، جن کی ٹیم نے بچوں کو اسپتال منتقل کیا تھا۔

اس کے علاوہ، جیو نیوز کے نمائندے دانیال عزیز نے ان آٹھ بچوں کی فہرست شیئر کی جو بے ہوش ہو گئے تھے، اور ان تمام کی عمریں پانچ سال سے زیادہ تھیں۔ یہ اہم ہے کیونکہ پولیو کے قطرے صرف پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پلائے جاتے ہیں، جو پولیو ویکسین سے کسی بھی تعلق کو مزید غلط ثابت کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ ویڈیو میں واضح طور پر دکھائی جانے والی گولیاں کیڑے مار گولیاں ہیں نہ کہ پولیو کے قطرے، جیسا کہ نیچے دیکھا جا سکتا ہے۔

فیکٹ چیک: سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین سے متعلق خوف و ہراس پھیلانے والی افواہوں کی حقیقت
 آن لائن ویڈیو میں گولیوں کا اسکرین گریب (دائیں)،صوبائی حکام کی جانب سے فراہم کردہ گولیوں کی واضح تصویر، جو ثابت کرتی ہے کہ یہ واقعی کیڑے مار گولیاں ہیں۔ (بائیں)

دعویٰ:

 واٹس ایپ گروپس میں ایک طویل متن پر مبنی پیغام گردش کررہا ہے کہ پاکستان میں بچوں میں پولیو کے انفیکشن کا سبب پولیو کے قطروں والی (oral) ویکسین (OPV) بن رہی ہے۔ اس پیغام میں والدین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے کی بجائے پولیو کے انجیکشن (IPV) کو ترجیح دیں۔

فیکٹ چیک: سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین سے متعلق خوف و ہراس پھیلانے والی افواہوں کی حقیقت
واٹس ایپ گروپس میں گردش کرنے والا دعویٰ

حقیقت

 یہ دعویٰ بھی غلط ہے،  پاکستان کےمحکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، قطروں کے ذریعے دی جانے والی اور انجیکشن کے ذریعے لگائی جانے والی دونوں پولیو ویکسین محفوظ اور مؤثر ہیں۔

ڈاکٹر رانا محمد صفدر، جو پاکستان میں امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے اسٹریٹجک ایڈوائزر ہیں، نے جیو فیکٹ چیک کو تحریری جواب میں وضاحت کی کہ اورل پولیو ویکسین(OPV) اور انجیکٹ ایبل پولیو ویکسین (IPV) دونوں بچوں کو پولیو سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا: ”دونوں ویکسین کے الگ الگ فوائد ہیں، قطروں والی پولیو ویکسین (او پی وی) آنتوں میں قوت مدافعت پیدا کرتی ہے اور وائرس کو انسانی آنت میں پھیلنے سے روکتی ہے، جبکہ انجیکٹ ایبل ویکسین (آئی پی وی) فالج سے بچاتی ہے، پاکستان میں تمام بچوں کےلیے OPV اور IPV دونوں کا استعمال ضروری ہے کیونکہ ملک اب بھی وائلڈ (wild) پولیو وائرس کا مقامی علاقہ بنا ہوا ہے۔“

فیصلہ

پولیو ویکسین کے بچوں کو نقصان پہنچانے کے الزامات پر مبنی وائرل ویڈیوز اور واٹس ایپ پیغامات غلط معلومات پر مبنی ہیں۔

ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرام@geo_factcheck پر فالو کریں۔

اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں