فیکٹ چیک: کیا سیدو شریف اسپتال پر نجی کرایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے؟

عمارت پر پہلے پرائیویٹ لوگوں نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا تھا، لیکن اب یہ محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے زیر انتظام ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک وائرل ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وادی سوات، خیبر پختونخوا کے ایک معروف پبلک ٹیچنگ اسپتال پر نجی افراد نے قبضہ کر لیا ہے اور اب عمارت کے مختلف حصے کرائے پر دیے جا رہے ہیں۔

یہ ویڈیو وسیع پیمانے پر غم و غصے کا باعث بنی ہوئی ہے، جہاں کئی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے صوبائی حکومت کی ناکامی یا ملی بھگت پر تنقید کی ہے کہ وہ سرکاری ملکیت کو واپس حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

دعویٰ

27 نومبر کو ایک صارف نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر 3 منٹ کی ویڈیو پوسٹ کی جس کے کیپشن میں لکھا تھا ’سوات میں سب کچھ ممکن ہے ، سیدو شریف تدریسی اسپتال کی عمارت پر ایک شخص نے قبضہ کرکے 2 لاکھ روپے ماہانہ کرایہ پر دیا ہے۔‘

ویڈیو میں ایک شخص کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ اسپتال کا گراؤنڈ فلور، جو پہلے ایمبولینس کی پارکنگ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ویڈیو میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ بالائی منزلیں نجی افراد کو کرائے پر دی جا رہی ہیں۔

آرٹیکل کے شائع ہونے تک، اس پوسٹ کو 4 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا، 150 سے زیادہ بار لائک اور 49 دفعہ شیئر کیا جا چکا ہے۔

فیکٹ چیک: کیا سیدو شریف اسپتال پر نجی کرایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے؟
اسکرین گریب/ ایکس

یہی ویڈیو فیس بک پر بھی پوسٹ کی گئی تھی۔

حقیقت

ویڈیو میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے اوراس میں اہم تفصیلات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

یہ درست ہے کہ سیدو شریف اسپتال کی عمارت کے کچھ حصے پہلے نجی افراد نے غیر قانونی طور پر قبضے میں لیے تھے، تاہم وہ حصے اب خالی کر دیے گئے ہیں۔ محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اب اسپتال کی آمدنی بڑھانے کے لیے ان جگہوں کو کرائے پر دینا شروع کر دیا ہے۔

سیدو گروپ آف ٹیچنگ اسپتال ایک پبلک اسپتال ہے جو سوات، ملاکنڈ، اور کوہستان کے علاقوں کو خدمات فراہم کرتا ہے۔ یہ سیدو میڈیکل کالج سے منسلک ہے۔

سیدو گروپ آف ٹیچنگ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شرافت علی خان نے جیو فیکٹ چیک کو ٹیلی فون پر بتایا کہ عمارت پر 30 سال سے زائد عرصے تک دکان داروں نے غیر قانونی قبضہ کر رکھا تھا اور انہوں نے اسپتال کی حدود میں تجارتی مرکز قائم کر لیا تھا۔ چند سال قبل صوبائی حکومت نے ان قبضہ مافیا کے خلاف قانونی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں انہیں نکال دیا گیا۔ اب محکمہ صحت  کے پاس عمارت کا کنٹرول ہے اور یہ کرائے پر دی جاتی ہے تاکہ اسپتال کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے، جس میں ہر سال   15فیصدکرائے کی مد میں اضافہ ہوتا ہے۔

تاہم، عمارت کے بعض حصے ابھی تک قبضے میں ہیں اور اس معاملے کو حل کرنے کے لیے قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔

جیو فیکٹ چیک نے خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے آفیسر تعلقات عامہ عطا اللہ خان سے بھی رابطہ کیا، جنہوں نے تصدیق کی کہ عمارت 1978 سے غیر قانونی قبضے میں تھی۔ 2011 میں، صوبائی حکومت نے یہ کیس سپریم کورٹ میں دائر کیا اور فیصلہ محکمہ صحت کے حق میں ہوا، جس کے نتیجے میں دکان داروں کو نکال دیا گیا۔

اس وقت محکمہ صحت ان جگہوں کو مقررہ نرخوں پر کرائے پر دیتا ہے، جن میں ہر سال 15 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم، عطا اللہ خان نے مزید بتایا کہ عمارت کے کچھ حصے اب بھی متنازع ہیں اور اس وقت ان پر قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔

فیصلہ

اگرچہ عمارت پر پہلے نجی افراد نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا تھا، لیکن اب یہ خیبر پختونخوا محکمہ صحت کے زیر انتظام ہے، جو اسپتال کی آمدنی میں اضافے کے لیے اسے کرائے پر دیتا ہے۔

ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرامgeo_factcheck @پر فالو کریں۔

اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔