06 جنوری ، 2025
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ عہد میں بیشتر افراد اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فونز پر گزارتے ہیں۔
یہ ڈیوائس صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ہم اس پر وقت دیکھتے ہیں، کسی جگہ کو تلاش کرتے ہیں، الارم کے لیے بھی اسے استعمال کرتے ہیں، ٹکٹیں بک کراتے ہیں، ویڈیوز دیکھتے ہیں، دوستوں کے ساتھ منصوبے یا پراجیکٹس شیئر کرتے ہیں۔
یہ تو اسمارٹ فونز کے چند طریقہ استعمال ہیں ورنہ اس ڈیوائس سے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اس کی فہرست بہت طویل ہے۔
مگر اسکرین ٹائم زیادہ ہونے سے صحت پر مختلف منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جبکہ وقت الگ ضائع ہوتا ہے۔
تو کیا اس لت سے بچنے کا کوئی آسان طریقہ بھی ہے؟
حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ کے دوران میزبان کی جانب سے اس حوالے سے ایک تکنیک کو شیئر کیا گیا تھا۔
میزبان کا دعویٰ تھا کہ اس تکنیک سے آپ محض 6 منٹ میں اسمارٹ فون کی لت پر قابو پاسکتے ہیں جبکہ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں 68 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
میزبان نے بتایا کہ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ محض 6 منٹ تک کسی کتاب کے مطالعے سے تناؤ میں 68 فیصد تک کمی آتی ہے، تناؤ میں کمی سے ہماری توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت مضبوط ہوتی ہے اور ہمیں فون کو استعمال کرنے کی خواہش کے آگے بند باندھنا آسان محسوس ہونے لگتا ہے۔
یہ تحقیق 2009 میں برطانیہ کی Sussex یونیورسٹی نے کی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کتابوں کا مطالعہ صرف خیالات کو بھٹکنے سے ہی نہیں روکتا، بلکہ ہمارے تخیل کو بھی مصروف رکھتا ہے کیونکہ تحریر کے الفاظ تخیل کو متحرک کرتے ہیں اور اس سے شعوری کیفیت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔
اس حوالے سے دیگر ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور دماغی افعال کے درمیان تعلق کافی ییچیدہ ہے اور فون پر بہت زیادہ وقت گزارنے سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی روک تھام ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مطالعے سے ہمارا ذہن متحرک ہوتا ہے اور متعدد تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ یہ عادت ذہنی افعال کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مطالعے سے نہ صرف ذہن متحرک ہوتا ہے بلکہ موازنے اور گہرائی میں جاکر تجزیہ کرنے جیسی صلاحیتیں بھی بہتر ہوتی ہیں جبکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دن بھر میں کم از کم 30 منٹ سے ایک گھنٹے تک مطالعہ کرنے سے ذہن کو فائدہ ہوتا ہے۔
جہاں تک اسمارٹ فون کی لت پر قابو پانے کی بات ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ صحت مندانہ تعلق سے بھی ذہنی افعال متحرک ہوتے ہیں، مگر جب یہ لت بن جائے تو مطالعے سے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔