26 جنوری ، 2025
2025ء کا سورج پی ٹی آئی کیلئے نیک شگون لے کر طلوع نہیں ہوا۔ عمران کی رہائی ہوئی اور نہ ہی پی ٹی آئی کو کوئی بڑا ریلیف ملا، حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات کسی طور پر قبول کرنے پر تیار نہیں جس کی وجہ سے عمران خان نے یک طرفہ طور مذاکرات کا کھیل ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ میں شروع دن سے ہی مذاکرات کو ’’مذاق رات‘‘ قرار دے رہا تھا۔
پی ٹی آئی نے مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی کیلئے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں جو عملی طور ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ قبل اس کے کہ حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات کو مسترد کرتی عمران خان نے 23 جنوری کی شب تک جوڈیشل کمیشن قائم نہ ہونے کی صورت میں مذاکرات کے چوتھے دور کے انعقاد سے قبل ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
عمران خان کا یہ اعلان حکومت کیلئے کوئی سرپرائز نہیں ہے کیونکہ حکومت نے دانستہ مذاکرات کو طول دے کر پی ٹی آئی کو مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ احتساب عدالت نے عمران خان کو 14سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو7سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے بظاہر دونوں اطراف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے مذاکرات پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے لیکن سزا کو ایک ہفتہ نہیں ہو پایا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کو ختم کر دیا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزاپر جس طرح حکومتی طبلچی عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزا دینے پر دَف بجا رہےتھے اور پی ٹی آئی کی جانب سے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے سیاسی ماحول میں بہتری آنے کی بجائےمزید خرابی آئے گی جو ملک کو سیاسی عدم استحکام کی طرف لے جائے گی، کسی وقت بھی مذاکرات کی میز الٹ دی جائے گی۔ مذاکرات کی میز سجانے سے پی ٹی آئی نے فارم 47کی حکومت کو عملاً تسلیم کر لیا ہے اس سے اس کی جگ ہنسائی ہوئی ہے عمران خان کو سزا ہونے پرحکومت اور پی ٹی آئی کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔
دونوں میں سے جس کا بس چلے ایک دوسرے کا وجود ہی ختم کر دے لیکن زمینی حقائق کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ حکومت کسی طور پر بھی عمران خان کی رہائی کے حق میں نہیں وہ سمجھتی ہے کہ عمران کی رہائی اسے عدم استحکام کا شکار کر دے گی لہٰذا وہ اپنی آئینی مدت کے دوران عمران خان کی رہائی افورڈ نہیں کر سکتی۔ جبکہ پی ٹی آئی ناکام ایجی ٹیشن کے بعد تھک ہار کر نہیں بیٹھی اس کی تمام تر توجہ سول نافرمانی کی تحریک کی طرف مرکوز ہے فوج کے اداروں کی پراڈکٹس کے بائیکاٹ کی مہم پہلے ہی چلائی جا رہی ہے بیرون ملک پاکستانیوں، جن کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان کی اکثریت عمران خان کے حق میں ہے، کو ترسیلات زر روکنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔عمران خان کے پاس رہائی کیلئے یہ آخری کارڈ ہے اگر یہ بھی ناکام ہو گیا تو پھر عمران خان کیلئے اپنی شرائط پر رہا ہونا ممکن نہیں پی ٹی آئی کی آخری امید واشنگٹن سے آنے والی کال پرہےفی الحال حکومت دعوے کر رہی ہے کہ اسے گزشتہ سال کے مقابلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ زر مبادلہ موصول ہوا ہے لہٰذا اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر محفوظ ہیں۔
سر دست حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے دو مطالبات جن کے 22نکات ہیں کا تحریری جواب نہیں دیا گیا، حکومت کی جانب سے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا تھا تاہم باخبر ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے مطالبات کا جواب تیار کر لیا ہے اور اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی جا رہی ہے۔ در اصل باخبر ذرائع سے شائع ہونے والی خبر حکومتی حلقوں کی طرف سے لیک کی گئی اور پی ٹی آئی کو بالواسطہ پیغام دے دیا گیا کہ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے مطالبہ پر سانحہ 9مئی 2023ء پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس پیغام پر حکومت پی ٹی آئی کا رد عمل دیکھنا چاہتی تھی، جو اگلے روز پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کی صورت میں دے دیا۔ حکومت کا موقف ہے کہ 9مئی 2023ء کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن قائم ہی نہیں ہو سکتا، جوڈیشل کمیشن ان معاملات پر بنتا ہے جو کسی عدالت میں زیر سماعت نہ ہوں۔
9مئی 2023ء کے واقعات میں ملوث کچھ ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں بھی ہو چکی ہیں حکومت نے پی ٹی آئی کے دوسرے مطالبے کے جواب میں کہا ہےکہ 26نومبر 2024ء کے واقعات میں لاپتہ اور گرفتار افراد کی تفصیلات فراہم کی جائیں، گرفتار افراد کے نام اور دیگر تفصیلات نہ ہونے سے ان کی رہائی کیلئے کیو نکر اقدام کیا جا سکتا ہے ؟ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ26نومبر 2024کو ہلاکتیں ہوئی ہیں لہٰذا انکی تفصیلات فراہم کی جائیں لیکن 23جنوری 2025کو اڈیالہ جیل میں مقدمہ کی سماعت کے موقع پر بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا بعد ازاں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے بھی یہی کہا کہ ’’حکومت نے سات روز میں کمیشن بنانے تھے لیکن اب تک حکومت نے 9مئی 2023ء اور 26نومبر 2024ء کے واقعات پر کمیشن نہیں بنائے اس لئے ہم مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں‘‘ بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ہماری بڑی خواہش تھی کہ مذاکرات جاری رہیں اور معاملات آگے بڑھیں لیکن برف پگھل نہیں رہی تاہم ان کا کہنا ہےکہ بانی چیئرمین کہہ چکے ہیں کہ ہمیں بیرون ملک سے کسی مدد کا انتظار نہیں ہم سیاسی جماعتوں سے مل کر جدوجہد کریں گے۔
بیرسٹر گوہر خان اور علی امین گنڈا پور کی آرمی چیف سے ملاقات کا بڑا چرچا رہا۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اس ملاقات کے تناظر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اب انکی طاقت ور حلقوں تک رسائی ہو گئی ہے اور سیاسی منظر تبدیل ہونے کو ہے لیکن مذاکرات کے کھیل کے ختم ہو جانے سے اس تاثر کو تقویت نہیں ملی ہے۔آئندہ دنوں میں پی ٹی آئی کو اس وقت تک کوئی ریلیف نہیں ملے گا جب تک بانی چیئرمین 9مئی2023ء کے واقعات پر معافی نہیں مانگتے اور پی ٹی آئی مائنس ون کا فارمولہ تسلیم نہیں کرتی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔