29 جنوری ، 2025
(گزشتہ سے پیوستہ)
22 دسمبر 1988ءکو پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان 59نکاتی معاہدہ ہو گیا جس سے بڑی اُمیدیں پیدا ہوئیں کیونکہ بہرحال دونوں سندھ کی نمائندہ جماعتیں تھیں اور یہ اسلئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ ابھی چند ماہ پہلے ہی حیدر آباد اور کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔
یہ معاہدہ سندھ کی سیاست کا رخ موڑ سکتا تھا خدشات تو ہوتے ہی ہیں اور خاص طور پر ایسے ماحول میں لیکن اس سب کے باوجود یہ صوبے میں سیاسی استحکام لانے کی طرف بڑی پیشرفت تھی مگر پھر ہوا کیا… یاد رہے اس سیریز کا بنیادی مقصد یہی بتانا، سمجھانا ہے کہ پہلے جمہوری تحریکوں کو کچلا گیا اور لسانیت اور فرقہ واریت پیدا کی گئی پھر سیاست کو غیرسیاسی بنانےکیلئے غیرجماعتی بنیادوں پر نظریاتی سیاست ختم کی گئی اور پھر جب تمام تر کشیدگیوں کے باوجود دونوں نمائندہ جماعتوں نے اتحاد کر لیا تو ایک نیا کھیل کھیلا گیا جس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
ابھی معاہدہ کراچی کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اُس وقت کی ’’مقتدرہ‘‘ کے سب سے مستند پروجیکٹ ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کے ذریعے محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی جس میں مبینہ طور پر اُس وقت کا ایوانِ صدر پوری طرح ملوث تھا اور صدر غلام اسحاق خان، آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اہم کردار تھے۔
اس تحریک کی کامیابی کیلئے ایم کیو ایم کی حمایت لازمی تھی لہٰذا کراچی میں کلفٹن کے ایک گھر میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی اور ایک خفیہ معاہدہ میاں نواز شریف اور الطاف حسین نے کر لیا جس کا انکشاف بعد میں ہوا۔ یہ شاید مہاجر قومی موومنٹ اور الطاف حسین کی سب سے بڑی غلطی تھی، جس کے بعد ایم کیو ایم نہ صرف پی پی پی اور خاص طور پر بے نظیر بھٹو کا اعتماد کھو بیٹھی بلکہ بعد میں جو کچھ اُسکے ساتھ ہوا 1992ء کے آپریشن اور بعد میں 1995ء کے آپریشن کی صورت میں اُس نے پارٹی کی کمر توڑ دی مگر اسکے اصل کردار نواز شریف، غلام اسحاق اور جنرل بیگ نظر آتے ہیں جن کی سیاست کی نذرمعاہدہ کراچی ہو گیا اور یوں سندھ ایک بارپھر لسانی سیاست میں پڑ گیا۔
کراچی معاہدہ میں دونوں اکائیوں کو قریب لانے کے حوالے سے اہم نکات شامل تھے مثلاً اُس کی ابتدا ہی اِس نکتے پر ہوئی۔ ’’پاکستان کا مستقبل ایک نمائندہ حکومت قائم کر کے دیہی اور شہری سندھ کے عوام کو قریب لانے میں کردار ادا کرنا اور یہ اتحاد از سرےنو اِنکو متحد کرے گا‘‘۔
بینظیر بھٹو کیخلاف 1989ء میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو حیران کن طور پر ایم کیو ایم نے اتحادی ہوتے ہوئے اُن کے خلاف ووٹ دیا۔ ایم کیو ا یم نے 18اکتوبر، 1989کو کراچی میں اعلان کیا کہ اُنہوں نے IJI سے اتحاد کر لیا ہے۔ تاہم ایم کیو ایم کیلئے اُس وقت صورتحال اور خراب ہوگئی ہے جب وہ تحریک شکست سے دو چار ہوئی مگر اُنہیں یہ یقین دلایا گیا کہ جلد ہی پی پی پی کی حکومت کو برطرف کر دیا جائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا اور 4 اگست 1990 ء کو غلام اسحاق خان نے 58-2(B) کے تحت بینظیر کو وزیر اعظم کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔
سندھ میں 1982ء میں چلنے والی تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی ایک انتہائی موثر تحریک تھی اور اُس نے صوبے اور ملک پر گہرے سیاسی اثرات چھوڑے تھے مگر حیران کن طور پر ایک طرف دیہی سندھ میں جئے سندھ اس کی مخالف رہی اور شہری سندھ میں بھی اس کی حمایت بہت کم نظر آتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی1986ء میں واپسی اور1988ء میں مشروط حکومت بنانے کی غلطی اور 1990ء میں برطرفی نے ملک کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دیا۔
ایم کیو ایم اُس وقت تک مہاجر قومی مومنٹ سے متحدہ قومی مومنٹ بن چکی تھی جس کا مشورہ بھی اُس کو غالباً ’’مقتدرہ‘‘ کے حلقوں نے ہی دیا تھا مگرمقتدرہ کے ساتھ یہ ’’ہنی مون‘‘ مختصر رہا اور 1990ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد اور حکومت میں بہتر شیئر ملنے کے باوجود الطاف حسین اپنی اُس قوت اور طاقت کو سنبھال نہ سکے۔
جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل آصف نواز آرمی چیف بنے جو ایک سخت گیر جنرل کی شہرت رکھتے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے ایک ملاقات میں انہوں نے دیہی سندھ میں ڈاکوئوں کے بڑھتے ہوئے اغوا برائے تاوان اور شہروں میں بھتہ خوری کے حوالے سے رپورٹ دی جس میں واضح اشارہ ایم کیو ایم کی طرف تھا تو72بڑی مچھلیوں کا ذکر دیہی سندھ کے وڈیروں کی پشت پناہی سے تھا جن میں بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے پی پی پی سے رہا۔
دونوں جماعتوں کیلئے یہ خطرےکی گھنٹی تھی مگر یہ دونوں اب ایک دوسرے کی حلیف نہیں حریف اور جامعہ کراچی کے واقعہ نے جس میں پی پی پی کے طلبہ ونگ پی ایس ایف کے تین طالب علموں کو مبینہ طور پر اے پی ایم ایس او کے لڑکوں نے قتل کیا، دونوں جماعتوں کو اور دور کر دیا۔ ایک ایسا وقت بھی آیا جب دونوں طلبہ تنظیموں نے ایک دوسرے کے لڑکوں کو اغوا کر لیا یہ وہ وقت تھا جب جنرل آصف نواز کور کمانڈر تھے اس کے بعد کراچی میں رینجرز کو آئین کے آرٹیکل 147کے تحت تعینات کر دیا گیا جو آج بھی موجود ہے بعد میں انہیں کی موجودگی میں مغویوں کا تبادلہ ہوا جس کے بارے میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر صولت رضا نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔
1991 ء میں متحدہ قومی موومنٹ میں الطاف حسین کو ایک بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب اُن کے دو قریبی ساتھی آفاق احمد اور عامر خان اُن سے علیحدہ ہو گئے اور ایم کیو ایم نے پوری تنظیم توڑ دی اور تقریباً سارے سیکٹر انچارج اور یونٹ انچارج معطل کر دیئے گئے۔ اب اگر اِس سب کو اُس پس منظر میں دیکھیں جب پی پی پی اور ایم کیو ایم معاہدہ ہوا تھا تو سمجھ آ جائے گا کہ پس پردہ کون یہ اتحاد نہیں چاہتا تھا۔ ایک طرف جئے سندھ سے اُن کا اتحاد ختم ہوا تو دوسری طرف پی پی پی سے، یعنی جو قوتیں دیہی شہری سندھ کو متحد نہیں دیکھنا چاہتی تھیں وہ کامیاب ہوتی نظر آ رہی تھیں۔
مئی 1992ء میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی کراچی کے ایک اجلاس میں، جس میں وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق بھی موجود تھے۔ اُس سے چند ماہ پہلے ہی اُس وقت کے وزیراعلیٰ جام صادق علی کے مشورے پر الطاف حسین دسمبر یا جنوری 1992ء میں ہی لندن چلے گئے۔
متحدہ نے آپریشن کی حمایت کی اور غالباً اُنکی غلط فہمی یہ تھی کہ 72بڑی مچھلیاں پکڑی گئیں تو پی پی پی کے کئی رہنما پکڑے جائیں گے مگر 28مئی 92ء کو شروع ہونے والا آپریشن ایک افسوسناک واقعے کے بعد روک دیا گیا جس میں فوج کے ایک میجر ارشد نے 9 افراد کو دہشت گرد اور بھارتی ایجنٹ قرار دے کر ہلاک کر دیا، بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا اور آرمی چیف سمیت صدر، وزیر اعظم نے شاباش بھی دی دورہ بھی کیا مگر چند دن بعد ہی دی نیوز اخبار اور ایک سندھی اخبار کاوش نے تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ مارے جانے والے بیگناہ دیہاتی تھے۔
فوج کے ادارے ملٹری انٹلیجنس نے تحقیق کی تو خبر درست ثابت ہوئی جس پر جنرل آصف نواز نے نہ صرف میجر ارشد کے کورٹ مارشل کا حکم دیا بلکہ بعد میں اُسے پھانسی بھی ہوئی۔ (جاری ہے)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔