05 فروری ، 2025
اسلام آباد: ملک کی بندرگاہوں پر انڈر انوائسنگ اور ڈیجیٹل انٹیگریشن کے خلاء کی وجہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چائنا کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں ساڑھے5 ہزار ارب روپے کا فرق سامنے آنے کا انکشاف ہوا ہے۔
وزارت دفاع کے ذرائع نے میری ٹائم سیکٹر کی اصلاحات پر ٹاسک فورس رپورٹ کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ملکی پورٹس کے آپریشنز دیگر ممالک کے ساتھ ڈیجیٹل ذرائع سے جڑے ہوئے نہیں ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غلط بیانی (مس ڈکلیریشن) ہوتی ہے۔
ذرائع کے مطابق، اطلاعات ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چائنا کے ساتھ تجارت میں ساڑھے 5 ہزار ارب روپے کا فرق سامنے آیا ہے کیونکہ کارگو، مینی فیسٹ اور ڈیکلریشن میں ہیرا پھیری کیلئے ڈیجیٹل انٹیگریشن میں پائے جانےوالے خلاء کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
ساڑھے 5 ہزار ارب روپے کے اعداد و شمار کا تخمینہ جمع کردہ ڈیٹا سیمپلنگ کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ بندرگاہوں کے پراسیسز کو ڈیجیٹلائز نہ کرنے سے ٹیکسوں کی رقم کم ہو جاتی ہیں کیونکہ کئی معاملات میں اشیا کی کم قیمتیں ظاہر کی جاتی ہیں۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ پراسیس ان اشیا پر عام ہے جن پر ٹیکس زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ انفرادی کیسز ایسے بھی ہیں جن میں کرپٹ مافیا انفرادی بنیادوں پر فائدہ اٹھاتی ہے، ان میں غلط بیانی، ہارمونائزڈ سسٹم (HS) کوڈز میں ہیرا پھیری اور نظام میں انٹیگریشن کی عدم موجودگی شامل ہیں۔
ریونیو شارٹ فال اور چوری کے حوالے سے جن اہم ترین مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سے ایک بندرگاہوں کے اندر اور ایف بی آر اور کسٹمز حکام کے ساتھ مطلوبہ ڈیجیٹل رابطہ کاری کا فقدان ہے۔
ٹاسک فورس کے مطابق موجودہ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (ICT) کا بنیادی ڈھانچہ پرانا اور کلیدی کاروباروں اور سپورٹ فنکشنز کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے ناقص ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ری کنسی لیشن میں غلطیاں ہوتی ہیں، رپورٹنگ کمزور رہتی ہے اور پورٹ مینجمنٹ بنیادی کاروبار میں کم ہم آہنگ رہتی ہے۔ اس صورتحال سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بہترین اقدامات (بیسٹ پریکٹس) کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 32 بنیادی پراسیسز میں سے 11 شعبے ایسے ہیں جو بندرگاہوں کے آپریشن کی ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کے معاملے میں بالترتیب صرف 4 اور 6 ڈیجیٹل ہیں۔
ڈیجیٹائزیشن کیلئے ضروری 11 شعبوں میں ویسل اینڈ ٹریفک مینجمنٹ، کارگو اور کنٹینر مینجمنٹ، یارڈ اور گیٹ آپریشنز، ریسورس ایلوکیشن اینڈمینجمنٹ، سیفٹی/سیکیورٹی/ایمرجنسی مینجمنٹ، ماحولیاتی نگرانی اور پائیداری، عملہ اور مسافروں کا انتظام، انفراسٹرکچر اور مینٹیننس، بلنگ/ انوائسنگ/ فنانشل آپریشنز، کمیونیکیشنز اور اسٹیک ہولڈرز تعاون اور ڈیٹا اینڈ اینالیسز شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان کے معاملے میں درآمد کے وقت ’’اصل مقام‘‘ (پوائنٹ آف اوریجن) بتانا اور ’’سامان ظاہر کرنا‘‘ (گوڈز ڈکلیریشن) لازمی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ بیرونی رابطے کی عدم دستیابی اور مسائل کے حل کیلئے ٹیکنالوجی کی غیر موجودگی جعلی انوائسنگ، غلط ڈکلیریشن (بشمول سفارتی کارگو)، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور گرین چینل کے غلط استعمال کا باعث بنتی ہے۔
مزید یہ کہ، کم تخمینہ لگانے یا حد سے زیادہ تخمینہ لگائے جانے کے باعث یہ پتہ نہیں چلتا کہ اصل ٹیکس کتنا ہے اور کتنا ٹیکس ریفنڈ کیا جانا ہے۔ ذرائع نے فرضی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’کاربن اسٹیل پائپ‘‘ کی درآمد، جس کی اصل قیمت 0.9 ڈالر فی کلوگرام ہے، لیکن اس کا تخمینہ 0.69 ڈالر فی کلوگرام لگایا گیا، جس کے نتیجے 500 ٹن کھیپ پر 2 کروڑ روپے کی انڈر انوائسنگ ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ہارمونائزڈ سسٹم کے کوڈز میں ہیرا پھیری اور سسٹمز کی پرویژنز کی کمی کے نتیجے میں ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ مثلاً، پسینے کی بوُ دور کرنے والے اسپرے (ڈی اوڈرنٹس) کی اصل قیمت اگر 4.6 ڈالر فی کلو گرام ہے تو انڈر انوائسنگ ہو سکتی ہے، یہاں ہارمونائزڈ کوڈز میں ہیرا پھیری یا سسٹم اپ ڈیٹ نہ ہونے وجہ سے اس اسپرے کو کسی اور کیٹگری میں شامل کیے جانے کا احتمال ہے۔
اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تجزیے میں اصل رقم سامنے نہیں آئے گی (انڈر اسسمنٹ) اور ٹیکس چوری ہو سکتی ہے۔ ویب بیسڈ ون کسٹمز (WeBOC) مقامی سطح پر تیار کیا جانے والا ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو درآمدی اور برآمدی سامان کی ڈکلیریشن اور کلیئرنس کا کام کرنے والا کمپیوٹرائزڈ نظام ہے۔
تاہم، ذریعے کا کہنا تھا کہ، یہ فرسودہ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کنفیگریشن کے ساتھ ایک پرانا نظام ہے۔ حتیٰ کہ اسکینرز کو بھی اپریزمنٹ سسٹم میں ڈیجیٹل تقاضوں کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسپکشن کا نظام بھی سینٹرل سسٹم کے ساتھ منسلک نہیں لہٰذا غلطیوں، ہیرا پھیری اور تاخیر کا امکان رہتا ہے۔ ’’پاکستان سنگل ونڈو‘‘ کے ذریعے مالی لین دین بھی ڈیجیٹل بنیادوں پر نہیں کیا جاتا ہے جس سے غلطیاں اور اندازاً کھربوں روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ ڈیجیٹائزیشن اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی ڈومینز میں بہت سے مسائل سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچاتے ہیں اور آمدنی میں اضافے کے امکانات کو کم اور ٹیکس وصولی کو روکتے ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ ہاتھ سے کام کرنے (مینوئل ورک) اور تکنیکی کنٹرول کی عدم موجودگی سے ہونے والے نقصانات کا مجموعی تخمینہ لگانا بھی مشکل کام ہے۔