12 فروری ، 2025
آن لائن پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان آرمی نے خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں ایشیا کا سب سے بڑا چلغوزے کا باغ قائم کیا ہے جو سالانہ تقریباً 2 ارب روپے کی آمدنی مسلح افواج کے لیے پیدا کرتا ہے۔
دعویٰ غلط ہے۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے تین منٹ سے زائد دورانیے کی ویڈیو X (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کی، جس کے کیپشن میں دعویٰ کیا گیا کہ فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد لوگوں کو بے دخل کر دیا۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ”فوج نے شمالی وزیرستان کا وہ علاقہ جہاں سے لوگوں کو ہجرت کروائی اور آپریشن کیا اب وہاں کی زمیں پر قبضہ کرکے چلغوزے کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ صرف پچھلے سال فوج نے چلغوزے بیچ کر دو ارب روپیہ کمایا تھا“۔
یہ ویڈیو جو چینل”Discover Pakistan“ نے اپلوڈ کی، ایک فرنٹیئر کور (FC) افسر کے انٹرویو پر مشتمل ہے جس میں وہ شمالی وزیرستان کی وادی شوال میں پیدا ہونے والے اعلیٰ معیار کے چلغوزوں پر بات کر رہے ہیں۔ یہ وادی افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ افسرنے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ چلغوزے پاکستان میں فروخت کیے جاتے ہیں اور بیرون ملک بھی برآمد ہوتے ہیں۔
ایف سی افسر مزید بتاتے ہیں کہ یہ باغات 650 سے 700 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور گزشتہ سال ان سے تقریباً 2 ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔
اسی سے ملتے جلتے دعوے فیس بک پر بھی گردش کر رہے ہیں جنہیں یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
شمالی وزیرستان کے چار مقامی حکام اور ایک چلغوزے کے باغ کے مالک نے تصدیق کی ہے کہ یہ جنگلات پاکستان آرمی کے نہیں بلکہ نجی ملکیت ہیں۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ کے اسسٹنٹ کمشنر خالد عمران نے جیو فیکٹ چیک سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ وادی شوال کے باغات نجی ملکیت ہیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ”زیادہ تر زمین وزیر قبیلے کی ملکیت ہے اور تھوڑا سا حصہ جو ہے شوال وادی کا وہاں محسود قبیلہ بھی ہے، اس زمین کی ملکیت مکمل طور پر نجی ہے اور یہ ان قبائل کی ملکیت ہے، یہ حکومت کی ملکیت نہیں ہے۔“
خالد عمران نے وضاحت کی کہ 2014 سے 2016 تک جاری رہنے والے فوجی آپریشن ضربِ عضب کے دوران کئی مقامی افراد بے گھر ہوئے۔ کچھ لوگ واپس آ چکے ہیں لیکن شوال ویلی جیسے علاقے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اب بھی ممنوعہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ ”ان پابندیوں کی وجہ سے لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس علاقے میں سب کچھ فوج کے کنٹرول میں ہے تاہم چلغوزے کے موسم کے دوران مقامی افراد کو خصوصی داخلے کی اجازت دی جاتی ہے اور فوج ان کی فصل کے معاملات میں سہولت فراہم کرتی ہے۔“
خالد عمران نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چلغوزے کے درختوں کو مکمل طور پر نشوونما پانے میں تقریباً 60 سال لگتے ہیں لہٰذا اگر فوج نے 2014 میں باغات لگائے بھی ہوتے تو محض 10 سال میں یہ درخت پھل نہ دیتے۔ انہوں نے مزید کہا ”فوج کا کردار صرف علاقے میں سکیورٹی فراہم کرنے تک محدود ہے۔“
ضلع شمالی وزیرستان کے فارسٹ آفیسر سعید انور نے بھی جیو فیکٹ چیک سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کچھ علاقوں میں فوج سکیورٹی کے لیے تعینات ہے لیکن زمین بدستور مقامی باغ مالکان کی نجی ملکیت ہے۔
سعید انور نے وضاحت کی کہ ”جب مالکان چلغوزے جمع کر لیتے ہیں پھر ٹرانسپورٹیشن پر محکمہ جنگلات کو ڈیوٹی دیتے ہیں تو پھر انہیں مارکیٹ تک منتقل کر تے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ فوج کے کنٹرول سے باہر والے علاقوں میں مالکان خود چلغوزے جمع کر سکتے ہیں تاہم فوجی نگرانی والے علاقوں میں ایک مخصوص طریقہ کار اپنایا جاتا ہے تاکہ سکیورٹی کو یقینی بناتے ہوئے فصل کی برداشت ممکن ہو سکے"۔
سعید انور نے مزید بتایا کہ گزشتہ سیزن میں محکمہ جنگلات نے چلغوزوں پر عائد ڈیوٹی کی مد میں 8 لاکھ 38 ہزار 900 روپے وصول کیے جو حکومت کے خزانے میں جمع کرائے گئے۔ انہوں نے جیو فیکٹ چیک کو اس ٹیکس کی سرکاری رسید بھی فراہم کی۔
جیو فیکٹ چیک نے شمالی وزیرستان میں چلغوزے کے باغ کے مالک ملک نیک عمل خان وزیر سے بھی بات کی جنہوں نے آن لائن دعوؤں کو مسترد کر دیا۔
ملک نیک عمل وزیر نے کہا کہ ”چلغوزے کے جنگلات نہ تو حکومت کی ملکیت ہیں اور نہ ہی پاکستان آرمی کی بلکہ یہ مختلف مقامی قبائلی کمیونٹیز کی ملکیت ہیں۔“ انہوں نے مزید بتایا کہ فوج نہ تو یہ درخت لگاتی ہے اور نہ ہی انہیں پانی فراہم کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ”یہ جنگلات ہمارے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملے ہیں اور یہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی ہمارے ہی تھے۔“
ملک نیک عمل وزیر نے مزید بتایا کہ ہر سال 80 فیصد چلغوزے چین اور مشرق وسطیٰ کو برآمد کیے جاتے ہیں۔
اس کی تصدیق خیبر پختونخوا کے بورڈ آف ریونیو (BOR) کے سینئر رکن محمد جاوید مروت اور جنوبی وزیرستان لوئر کے ڈپٹی کمشنر محمد ناصر خان نے بھی کی۔
جیوفیکٹ چیک نے 30 جون 2023 کو مقامی انفوٹینمنٹ ٹی وی چینل” ڈسکور پاکستان“ پر نشر ہونے والے آٹھ منٹ کے مکمل پروگرام کا جائزہ بھی لیا۔ شوال ویلی میں ریکارڈ کی گئی اس قسط میں، ایف سی افسر نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ چلغوزے کے باغات پاکستان آرمی کی ملکیت ہیں یا فوج ان سے آمدنی حاصل کرتی ہے۔
فیصلہ: دعویٰ غلط ہے۔ شمالی وزیرستان میں چلغوزے کے جنگلات پاکستان آرمی کےنہیں بلکہ مختلف مقامی قبائل کی ذاتی ملکیت ہیں۔
ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرامgeo_factcheck@پر فالو کریں۔ اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔