Time 14 فروری ، 2025
بلاگ

’’قیامت کی گھڑی، آن کھڑی‘‘

صدر ٹرمپ اور نیتن یاھو نے بروز ہفتہ12 بجے دن تک حماس کو یرغمالیوں کی رہائی کا الٹی میٹم دے رکھا ہے، بصورت دیگر غزہ پر دوزخ کھولنے کی دھمکی دی ہے۔ پچھلے 77 سال سے فلسطینی دوزخ ہی میں تو ہیں۔ 

بالفرض محال، امریکہ اور اسرائیل بمطابق عزائم ، فلسطین اور ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہو گئے تو مشرق وسطیٰ میں بلاشرکت غیرے حقوق ملکیت مل جائیں گے؟ چشم تصور میں کل 12 بجے فلسطین پر امریکہ نے قیامت نازل کرنی ہے۔ صدر ٹرمپ کا ’’روڈ میپ‘‘ غزہ پر قبضہ کرنا اور 2ملین فلسطینیوں کو سعودی عرب، مصر، اُردن شفٹ ہونے کا حکم صادر فرما چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایجنڈا کے آئٹم نمبر1سے شاید متفق نہ ہو بلکہ امریکی قبضہ پر متفکر ہو، البتہ دوسرے پوائنٹ پر صدق دل سے متفق ہے۔

مسلمان، مسیحی اور یہودی، سب اپنی اپنی کتاب، روایات اور ایمان بمطابق ’’قیامت کی گھڑی‘‘، پہلے قتل و غارت، معرکہ خیر و شر، حضرت عیسیٰ ؑ کا ظہور، سب منتظر ہیں۔ برمحل، عرب کا اونٹ جس نے جاڑے سے بچنے کیلئے مالک سے پہلے گردن، پھر اگلی ٹانگیں اور پھر آخری حصہ خیمہ کے اندر رکھنے کی گزارش کی۔ مالک نے ترس کھا کر جب اجازت دی تو بالآخر اونٹ خیمہ کے اندر اور ہمدردی کرنیوالا مالک خیمہ کے باہر کھلے آسمان کے نیچے تھا۔ یہی کچھ کہانی اسرائیل کی ہے۔ 

ہزاروں سال سے ظلم و ستم، بنی اسرائیل بے یارو مددگار، غریب الوطنی کی گرفت میں دربدر ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ فرعون ِمصر سے لیکر سلطنت روم، بازنطینی، ہر زمانہ میں دیس نکالا (EXODUS ) ملا، ترنوالہ بنے رہے۔ ظہورِ اسلام کے بعد جب بھی نامساعد حالات کا سامنا ہوا، جائے اماں و پناہ مسلمان حکومتوں میں ملی۔ یہی وجہ ہے کئی مسلمان ممالک ایران و ترکی وغیرہ میں یہودی آباد ہوئے۔ یوں تو 2ہزار سال سے عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے تھے، بار بار راندہ درگاہ بنے۔ 19ویں صدی سے لیکر 20ویں صدی کے پہلے نصف تک، تسلسل سے عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام معمول تھا، (بقول یہود) نازی جرمن نے ’’60لاکھ‘‘ یہودی مارے، HOLOCAUST یہودیوں کا ڈراونا خواب ہے۔

نازی جرمن کے ہاتھوں قتل و غارت، سائبریا کے برفانی علاقوں میں CONCENTRATION CAMPS میں ہانکے گئے۔ صدیوں کی ذلت و خواری کے بعد 19ویں صدی میں، ایک جرمن یہودی ALFRED DREYFUSنقل مکانی کرکے فرانسیسی فوج کا حصہ بنا، شہرت ملی تو فرانس سے صیہونی (ZIONIST) تحریک شروع کی۔ دولت کے انبار جمع کرکے یہودیوںکیلئےمستقل ٹھکانا ڈھونڈنا تھا۔ ارضِ موعود PROMISED LAND فلسطین ہی تو تھی۔ تو ایک مقصد یہودیوں کو تحفظ کیلئے سرزمین فلسطین منتقل کرنا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی سے مفلوک الحال یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنا شروع کر دیا گیا۔ درخشاں ماضی کی طرح مقامی فلسطینیوں نے سینے سے لگایا، اپنے گھروں میں ان کو جگہ دی، انکی مظلومیت پر رنجیدہ ہوئے۔ 19ویں صدی تک سرزمین فلسطین پر یہودی نہ ہونے کے برابر تھے۔

 19ویں صدی ہی سے مسلمان سلطنتیں انحطاط اور تنزلی کا شکار ہو چکی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر آخری قلعہ (سلطنت عثمانیہ) بھی مسمار ہو گیا۔ مشرق تا مغرب مسلمان ممالک جوق در جوق غلامی اختیار کر چکے تھے۔ اگرچہ سرزمین فلسطین بھی ہر لحاظ سے غلام، چونکہ تمام مذاہب کیلئے متفقہ مقدس تھی، برطانیہ کے نیچے بین الاقوامی نگرانی میں دے دی گئی۔ یعنی کہ عملاً برطانوی راج تھا۔ ایک سکیم کے تحت یہودی سرمایہ کاروں نے بعینہ سرمایہ کاری کی جیسے ٹرمپ نے غزہ پر قبضہ کرکے امریکی سرمایہ کاروں کو مدعو کو رکھا ہے۔

عرب کے اونٹ کی طرح جیسے ہی سر گھسانے کی جگہ ملی، یہودی اندر قابض، فلسطینی باہر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔1948 میں فلسطینیوں کی 14ملین آبادی تھی، جن میں سے قیام اسرائیل کے بعد 8لاکھ کو اپنے گھروں سے بے دخل کرکے مہاجربنا دیا گیا۔ آج کی فلسطینی نسل کی کثیر تعداد مہاجرین کیمپ میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی۔ 5مئی 1948کو اسرائیل کا قیام رسماً ہوا۔ یہودیوں کی نقل مکانی 1910ء سے شروع ہو چکی تھی۔ پچھلے کالم میں 1917 کے BELFORE ڈیکلریشن کا ذکر کیا تھا۔ جس میں یہودی سرمایہ دار روتھ چائلڈ کو تاج برطانیہ نے اسرائیلی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ایک حقیقت اور بھی، 1916میں جب اندازہ ہو گیا کہ اتحادی جنگ جیت رہے ہیں تو برطانوی وزیر خارجہ SYKES اور فرانسیسی وزیر خارجہPICOT میں مشرق وسطیٰ کی بندر بانٹ کا خفیہ معاہدہ طے پایا۔ سلطنت عثمانیہ کی شکست پرفتوحات سمیٹنا تھیں۔ حفظ ماتقدم کے طور پر فلسطینی سرزمین وافر مقدار میں گھس بیٹھیوں کو الاٹ کر دی گئی تھی۔ چنانچہ اسرائیل کا قیام اٹل تھا، بدرجہ اتم گنجائش موجود تھی۔ 1945کے بعد امریکہ نے باقاعدہ طور پر سوپر پاور پوزیشن ہتھیا لی تھی۔امریکی ایجنڈے پر پہلا نقطہ یہودی ریاست کا قیام تھا، کر ڈالا۔

اقوام متحدہ زیر استعمال، 1947ہی میں اقوام متحدہ سے اسرائیلی ریاست کا نقشہ اور جغرافیہ منظور کروا لیا گیا۔ جہاں 5لاکھ یہودیوں کو 56فیصد زمین جبکہ 14لاکھ فلسطینیوں کو 42فیصد زمین تک محدود کر دیا گیا، تب سے عملاً 100فیصد اسرائیل کے تصرف میں ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو 5مئی 1948میں ظالمانہ طریقہ سے بے دخل کیا گیا۔ اسرائیل کا قیام نقطہ آغاز، اصل عزائم اگلے 77سال میں آشکار ہوئے۔ طاقتور سوویت یونین کی وجہ سے کوئی جو معمولی جھجک تھی، 1988سے روس کی شکست و ریخت کے بعد گھناؤنے عزائم بے تکلفی سے نافذ کیے۔

امریکہ نے وقت ضائع کیے بغیر 1988میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا شوشہ چھوڑا۔ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ’’پراجیکٹ فاردی نیو امریکن سنچری‘‘ شروع کیا۔ SAMUEL HUNTINGTONجیسے دانشوروں نے برملا اعلان کیا۔ اپنی کتاب (CLASH OF CIVILIZATIONS ) میں یہی بتایا کہ اگلی جنگ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کیساتھ ہو گی۔ گوکہ کتاب 1991میں شائع ہوئی، پہلی خلیجی جنگ 1990میں شروع ہو چکی تھی۔ عراق فتح کرکے باقی ممالک کا رُخ کرنا تھا، اس وقت بوجہ ادھورا کام چھوڑ گئے۔ بالآخر 2003میں جیسے ہی عراق فتح ہوا، پھر چل سو چل، صومالیہ، ایتھوپیا، سوڈان، لیبیا، شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔بالآخر کامیابی سے حزب اللہ کا قلع قمع کیا۔ ایک ترتیب ہے اور تہذیبوں کے ٹکراو کا سلسلہ جاری ہے۔امریکہ اسرائیل سے اپنے تئیں مشرق وسطیٰ ہتھیاء چکے ہیں۔ حماس پر دوزخ برسانے کے بعد، ایک ہی ہلے میں ایران فتح پر دھاوا بولیں گے۔ اگر ایران میں کامیابی ملی تو مشرقِ وسطیٰ پکے پکائے پھل کی طرح امریکی گود میں ہو گا۔ پاکستان کے بارڈر تک، اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ذرا سوچ سمجھ والا معاملہ ہی ہے۔ گارنٹی! ایسا ہوگا نہیں۔ امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ ہتھیاء لیں اور چین خاموش تماشائی رہے۔ نیل کے ساحل تابخاک کاشغر، امریکہ کی حاکمیت اسکا واہمہ ہی ہے۔ قبر ایک ہے، چین پسند فرمائے گا کہ امریکہ اس قبر میں آرام فرمائے۔ فیصلہ کی گھڑی بھی اور قیامت کی گھڑی بھی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔