16 فروری ، 2025
مصطفیٰ قتل کیس میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ( اے وی سی سی ) پولیس کے مطابق مصطفیٰ کو گاڑی سمیت جلانے کے واقعہ کے اگلے روز ارمغان بذریعہ جہاز اسلام آباد اور وہاں سے اسکردو چلا گیا۔
بعد ازاں ملزم شیراز بھی کراچی سے پہلے لاہور پہنچا اور وہاں سے اسلام آباد اور پھر اسکردو پہنچا۔
پولیس کے مطابق یہ دونوں اسکردو میں رہ کر کراچی کی خبریں لیتے رہے کہ آیا ان پر کوئی شک تو نہیں کیا جا رہا۔
28 جنوری کو شیراز کراچی پہنچا اور ارمغان کو واپس آنے کے لیے کہا جس کے بعد 5 فروری کو ارمغان بھی واپس کراچی پہنچ گیا۔ اس سارے معاملے پر ساؤتھ انویسٹی گیشن پولیس اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی۔
ڈیفنس میں ملزم کے بنگلے پر ریڈ اور اس کی گرفتاری کے بعد بھی پولیس ملزم سے کچھ اگلوا نہیں سکی، بعد ازاں وفاقی حساس ادارے اور سی پی ایل سی نے ارمغان کے دونوں ملازمین کی نشاندہی پر پہلے شیراز کے بھائی کو حراست میں لیا اور شیراز کے بھائی کی نشاہدہی پر شیراز کو گلستان جوہر سے حراست میں لیا گیا۔
ملزم شیراز نے دوران تفتیش واقعے کی تفصیلات بتائیں، شیراز نے بتایا کہ 6 جنوری کی شب مصطفیٰ اور ارمغان بات کر رہے تھے کہ ارمغان طیش میں آگیا اور ایک راڈ سے مصطفیٰ کو مارا، راڈ لگنے سے مصطفیٰ زخمی ہوگیا۔
ارمغان نے پاس پڑی ہوئی رائفل اٹھائی اور مصطفیٰ پر فائر کردیے، اس کے بعد ارمغان اور شیراز نے ٹیپ اٹھا کر مصطفیٰ کے ہاتھ، پیر اور منہ پر ٹیپ لگائی اور مصطفیٰ کو اسی کی کار کی ڈگی میں ڈال دیا، مصطفیٰ اس وقت تک سانسیں لے رہا تھا۔
ارمغان اور شیراز نے مصطفیٰ کی کار بنگلے سے نکالی، کار میں بیٹھنے سے پہلے ارمغان نے اپنے گھر کے جنریٹر سے پیٹرول ایک کین میں بھرا اور کار کی عقبی سیٹ پر رکھ دیا، ارمغان کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ ملزمان ماڑی پور سے ہوتے ہوئے حب پہنچے اور حب سے آرسی ڈی ہائی وے سے ہوتے ہوئے جب یہ لوگ حب پہنچے تو انھیں سامنے روڈ کے ساتھ تھانہ نظر آیا اور کچھ پولیس والے روڈ پر کھڑے نظر آئے تو ارمغان نے کار واپس لے لی اور کچھ آگے جاکر کار کو روڈ سے نیچے اتار لیا۔
ارمغان اور شیراز کو خوف تھا کہ کار سے ہمارے فنگر پرنٹ وغیرہ نہ مل جائیں اس لیے انہوں نے کار کا بونٹ کھول کر انجن پر اور باہر ٹائروں پر اپنے پاس موجود کین سے پیٹرول ڈالا اور کار کو آگ لگا دی۔
ملزم کے مطابق مصطفیٰ کار کی ڈگی میں اس وقت زندہ تھا ،کار کو آگ لگا کر ملزمان پیدل واپس کراچی کی طرف چل پڑے، رات کو اس روڈ پر کوئی ٹریفک نہیں تھا۔ دونوں تین گھنٹے تک پیدل چلتے رہے، ان کو پیٹرول پمپ پر ایک ہوٹل نظر آیا، دونوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا جہاں ہوٹل والوں نے ان کو بتایا کہ صبح 8 بجے ایک بس کراچی جاتی ہے۔
یہ دونوں ہوٹل کے ساتھ بنی ہوئی مسجد میں سوگئے، صبح بس نہیں آئی تو ان لوگوں نے ایک سوزوکی والے کو 2000 روپے دیے ،سوزوکی نے ان کو 4K چورنگی پر اتارا، پھر ملزمان رکشہ اور آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے گھر پہنچے۔