20 فروری ، 2025
زیادہ پرانی بات نہیں1996ء میں پاکستان، بھارت اور سری لنکا نے مل کر جنوبی ایشیا میں کرکٹ کا ورلڈ کپ منعقد کرایا تھا۔ آج بھارت کی کرکٹ ٹیم پاکستان آکر کھیلنے کیلئے تیار نہیں اور چیمپئنز ٹرافی کے تمام میچ دبئی میں کھیل رہی ہے۔
ایک طرف بھارت کے کرکٹرز پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں لیکن دوسری طرف بھارت کے بہت سےا سپورٹس جرنلسٹ چیمپئنز ٹرافی کے نام پر ویزے حاصل کرکے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
بھارت کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے پیغام بھیجا کہ ان کا اسپورٹس رپورٹر پاکستان آ رہا ہے اور میں اس کا بابر اعظم کے ساتھ انٹرویو فکس کرا دوں۔ میں نے محترم ایڈیٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کی کرکٹ ٹیم تو یہاں آنے کیلئے تیار نہیں تو آپ نے اپنا رپورٹر کیوں بھیج دیا؟ کہنے لگے بھیا جی! ان باتوں کو چھوڑو پاکستان ایک بہت بڑی پراڈکٹ ہے یہ پراڈکٹ ہمارے انڈیا کی پالیٹکس اور فلم انڈسٹری سے لیکر کرکٹ تک ہر جگہ بہت بکتی ہے۔
آج کل انڈیا میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ ہم نے تو پاکستان میں جاکر کھیلنے سے انکار کیا، پی ایس ایل میں انڈین کرکٹرز کو کھیلنے سے روکا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم نہ ہو سکی اور آج وہاں چیمپئنز ٹرافی ہو رہی ہے ۔ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ ہم نے اپنا رپورٹر اس لئے بھیجا ہے کہ وہ ایک فیچر اسٹوری تیار کرے کہ پاکستان میں کرکٹ کی کامیابی کی اصل کہانی کیا ہے؟
چیمپئنز ٹرافی کی کوریج کیلئے بھارت سے آنے والے اسپورٹس بلٹس اپنی کہانیوں میں پتہ نہیں کیا لکھیں گے لیکن اگر آپ نے پاکستان اور بھارت میں فرق سمجھنا ہے تو دونوں ممالک کے کرکٹ سسٹم کو سمجھیں آپ کو آسانی سے فرق سمجھ آجائے گا۔ پاکستان اور بھارت میں عوام کی اکثریت کو اس کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ اس جنون کی جڑیں تقسیم ہند سے قبل شروع ہو نے والے ایک ٹورنامنٹ میں ملتی ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ بمبے (ممبئی) کراچی، مدارس (چنائی) اور کلکتہ (کولکتہ) میں کھیلا جاتا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں ہندو، مسلمان، پارسی اور یورپی باشندوں کی چار ٹیمیں شامل ہوتی تھیں ۔بعد میں کرسچنز، سکھوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ ٹیم 1937ء میں سامنے آئی اور ٹورنامنٹ میں پانچ ٹیمیں ہو گئیں ۔
ٹورنامنٹ کا نام بمبے پنٹینگولر تھا اور اس میں جب بھی مسلمانوں کی ٹیم فتح حاصل کرتی تو قائد اعظم کی طرف سے مبارکباد کا پیغام ضرور جاری کیا جاتا۔جب مہاتما گاندھی کو احساس ہوا کہ بمبے پنٹینگولر کی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ اہمیت اختیار کر رہا ہے تو انہوں نے اس ٹورنامنٹ کے انعقاد کی مخالفت شروع کر دی۔ 1934ء اور 1935ء میں مسلمانوں کی ٹیم نے ہندو ٹیم سے یہ ٹورنامنٹ جیت لیا تو ایک طوفان آ گیا۔ اس جیت میں وزیر علی کا اہم کردار تھا دوسری طرف کے نمایاں کھلاڑی سی کے نائیڈو تھے۔
1940ء میں کانگریس نے ہندو کھلاڑیوں کو مسلمانوں کے ساتھ کھیلنے سے روک دیا اور ہندو ٹیم نے بمبے پنٹینگولر میں شرکت ہی نہیں کی لیکن ٹورنامنٹ ہوا اور مسلمان ٹیم نے ٹورنامنٹ جیت لیا۔ کچھ عرصے بعد ہندو ٹیم واپس آگئی اور 1944ء میں مسلمانوں سے فائنل ہار گئی ۔یہ وہ زمانہ تھا جب کرکٹ عوامی کھیل نہیں تھا لیکن اس کھیل کی اپنی ایک اہمیت تھی۔
2013ءمیں پاکستان کے سابق فارن سیکرٹری اور پی سی بی کے سابق سربراہ شہر یار خان نے CRICKET CAULDRONکے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا دیباچہ عمران خان نے تحریر کیا تھا۔ اس کتاب میں شہر یار خان نے پہلی دفعہ تحریک پاکستان میں کرکٹ کے کردار کو بیان کیا۔ 1947ء میں پاکستان اور بھارت قائم ہونے کے بعد 1952ء میں پہلی دفعہ پاک بھارت کرکٹ سیریز ہوئی یہ سیریز 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے چار سال بعد شروع ہوئی اور پاکستانی ٹیم بھارت کے دورے پر گئی۔
1955ءمیں بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو دس ہزار سے زائد بھارتی شائقین ویزے لیکر میچ دیکھنے پاکستان آئے۔ اس وقت لاہور میں کوئی بڑا اسٹیڈیم نہیں تھا لہٰذا لاہور میں باغ جناح گراؤنڈ پر ٹیسٹ میچ ہوتا تھا۔قذافی اسٹیڈیم بہت بعد میں بنایا گیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ کے درمیان طویل ترین ڈیڈ لاک 1961ء سے 1978ء کے درمیان تھا۔ 17سال تک دونوں ممالک نے آپس میں کرکٹ نہیں کھیلی۔
1978ء میں جنرل ضیاء الحق کی درخواست پر مرارجی ڈیسائی کی حکومت نے بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجی تو کرکٹ میچوں کے دوران بھٹو کو رہا کرو کے نعرے لگ گئے۔ لاہور کے ایک میچ میں بیگم نصرت بھٹو صاحبہ اپنے خاوند کی رہائی کیلئے نعرے لگاتے ہوئے پولیس کی لاٹھی چارج کا نشانہ بن گئیں ۔جنرل ضیاء نے کرکٹ کو سیاست سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کیا اور پیپلز پارٹی نے کرکٹ میچوں کو بھٹو کی رہائی کیلئے آواز اٹھانے کا ذریعہ بنایا۔
پاکستان اور بھارت میں طویل عرصے کے بعد شروع ہونے و الے کرکٹ میچوں کےباوجود حالات بہتر نہ ہوئے اور 1984ء میں بھارت نے خاموشی سے سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔پھر 1996ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان اوربھارت دوبارہ ساتھ ساتھ تھے لیکن 1999ء میں کارگل ہو گیا۔ مشرف دور میں کرکٹ کو دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا گیا لیکن کشمیریوں کو اعتماد میں نہ لینے کے باعث کوئی بریک تھرو نہ ہوا اور کرکٹ ڈپلومیسی کا ردعمل 2008ء کے ممبئی حملوں کی صورت میں سامنے آیا۔
ان حملوں کا جواب 2009ء میں لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ تھا جس کو جواز بنا کر بھارت نے پاکستان میں کرکٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔اس بائیکاٹ نے پاکستان کو مشکلات سے تو دوچار کیا لیکن آخر کار 29سال کے بعد دوبارہ پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد بھارت کی بہت بڑی شکست ہے۔ بھارت انٹرنیشنل کرکٹ کا مضبوط ترین کردا رہے۔
بھارت میں کرکٹ کا ایک مضبوط اور مربوط نظام ہے۔ علاقائی ایسوسی ایشنز سکول اور کالج سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک ٹورنامنٹس کا اہتمام کرتی ہیں ۔کلب کرکٹ کا ایک ٹھوس نظام ہے لیکن پاکستان میں کرکٹ کا کوئی ٹھوس نظام موجود نہیں۔ حکومت بدلتی ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔
آج پاکستان کی کرکٹ اگر زندہ ہے تو ان جنونی کھلاڑیوں کی وجہ سے زندہ ہے جو سفارش اور اقربا پروری کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے گرتے پڑتے اور لڑتے رہتے ہیں۔ ان کی محنت اور قربانیوں کو بڑے لوگ بڑی بڑی جگہوں پر فروخت کر دیتے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کی کہانی دراصل پاکستان کے اس سسٹم کی کہانی ہے جس میں بابر اعظم کو اس کا اپنا شہر لاہور اپنی ٹیم سے نہیں کھلاتا، وہ اسلام آباد سے آکر کھیلتا ہے اور جب بابراعظم ہیرو بن جاتا ہے تو سارا کریڈٹ لاہور لے لیتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔