02 مارچ ، 2025
یوکرین دنیا بھر میں خوراک کی پیداوار کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ عالمی برآمدات میں 42فیصد معدنی تیل،پاکستان میں درآمد ہونے والی 48فیصد گندم اور انڈیا خوردنی تیل کا 76فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔
یورپی یونین کے ممالک بھی خوراک کے معاملے میں یوکرین کے مرہون منت ہیں، یورپ کو یہیں سے گیس کی ترسیل ہوتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ یہاں یورپی فوج کی تعیناتی یقینی ہو۔ ماسکو کی طرف سے امریکہ اور روس کے درمیان یوکرین امن معاہدہ پر یہ رد عمل سامنے آیا کہ یوکرین میں یورپی فوج کی تعیناتی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ کیا روس اور امریکہ امن معاہدہ کو حتمی شکل دے چکے ہیں یا اسکے قریب پہنچ چکے ہیں؟ مگر اس سے قبل یوکرین جنگ کے پس منظر کو اجاگر کرنے کی ضرورت بدستور موجود ہے۔
یوکرین ایک ایسی ریاست ہے جو روس سے علیحدہ ہوئی جب یہ ریاست علیحدہ ہوئی تو ایک معاہدہ یوکرین اور روس کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ وہ نیٹو کا رکن نہیں بنے گا۔ یہی نہیں اس وقت 17فیصد روسی النسل یہاں آباد ہیں جبکہ 40فیصد آبادی ہمیشہ روس کے ساتھ الحاق کی خواہاں رہی ہے لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی اکثریت ہے۔ الیکشن 2014میں وکٹر ینو کووچ، عوامی طاقت سے جیت گئے۔ جیت کے بعد ان کا موقف تھا گو ہماری آزاد حیثیت ہے مگر روس ہی ایک ایسا ملک ہے بطور ہمسایہ جس کے ساتھ کھڑا ہونے میں ہی ہمارا مفاد ہے۔
وکٹرینو کووچ صدر منتخب ہوئے انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کیلئے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا۔ یورپی یونین، جسے یہاں سے خوراک اور گیس کی ترسیل ہورہی تھی ،کیلئےکسی طرح یہ طرز عمل قابل قبول نہ تھا جبکہ امریکہ کا اتحادی ہونے کی بنا پر یہ امریکہ کیلئے بھی نہایت تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ ناقابل برداشت تھا جسکے بعد امریکہ نے وہاں کے گروہوں کی وفاداریاں خرید کر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کرادیئے اور غیر آئینی طور پر وکٹرینو کووچ کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔ امریکہ اور یورپی یونین نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ محض ایک رات میں یوکرین کے موجودہ صدر ولادی میر زیلنسکی جو ایک کامیڈین تھا کو صدر بنا دیا۔ یہیں سے روس اور یوکرائن کے درمیان تنازع کی آگ سلگنا شروع ہوئی روس نے یہاںبھی صبر سے کام لیا۔
روس کو یورپ میں قابو کرنےکیلئے امریکہ نے ایک چال یہ چلی کہ نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوینیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔ 2014روس یوکرین تنازع بڑھ گیا۔ روسی صدر پیوٹن نے جب زچ ہو کر باقاعدہ یوکرین پر حملے کا اعلان کر دیا تو مغربی میڈیا نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرنا شروع کر دیا۔ یوکرین کے صدر نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا اس سے قبل روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول دو خطوں لوہانسک اور ڈونیسک کو آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس پر امریکہ سیخ پا تھا۔ مشرقی یوکرین کے ان علاقوں میں داخل ہونیوالے روسی دستوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار تھی جو ٹینکوں، توپ خانوں، ہوائی جہازوں سے لیس تھی اور انھیں بحریہ کی مدد بھی حاصل تھی۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ مغربی ممالک سیکورٹی یقین دہانی کرانے اور یوکرین کو نیٹو کا حصہ بننے سے باز رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں امریکہ اور یورپی یونین کے پاس پروپیگنڈے کے سوا کوئی آپشن نہ رہا تو اب صدر ٹرمپ ایک معاہدہ کرنے آ گئے۔ ٹرمپ یہاں دو طرح کی گیم کھیل رہا ہے وہ ایک تاجر ذہنیت کے ساتھ یہاں کی قیمتی معدنیات کے حصول پر روس کا تعاون چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب وہ یہاں یورپی افواج کی تعیناتی پر مصر ہے تاکہ یورپ کو بھی راضی کیا جاسکے لیکن اس خواہش کو پیوٹن نے یکسر رد کر دیا ہے، اس کا ایک پس منظر یہ ہے کہ1990 میں جرمنی کے اتحاد کے موقع پر یہ طے ہوا تھا کہ برلن اور مشرقی جرمنی میں جوہری ہتھیار اور غیر ملکی فوجی تعینات نہیں ہونگے۔ اس وقت کی سرکاری دستاویزات میں موجود ہے کہ مشرقی یورپی ممالک کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت نہیں دی جائیگی۔ اس وقت سے روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو مشرق کی جانب پیش قدمی نہ کرے۔ روس نے اسکے مطابق مشرقی جرمنی اور پولینڈ وغیرہ سے اپنی افواج نکال لیں۔ لیکن 1992 میں وارسا پیکٹ ختم ہونے کے بعد کہا جانے لگا اب وہ معاہدہ موثر نہیں کیونکہ دوسرا فریق اب موجود ہی نہیں۔1997 میں نیا معاہدہ کیا گیا کہ نیٹو مشرق میں مزید ”قابل ذکر“ افواج مستقل طور پر تعینات نہ کرے گا۔
یہ معاہدہ امریکہ اور جرمنی کی 1990کی یقین دہانیوں کے مطابق تھا کہ نیٹو کا مشرق میں توسیع کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایک طرف تو معاہدہ نافذ نہ کیا گیا دوسری طرف 2004میں بالٹک ممالک کو نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور وہاں نیٹو افواج بھی تعینات کر دی گئیں۔ اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ 2007میں جو مزید ”قابل ذکر مستقل جنگجو فوجی“ تعینات نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا، جسکی توثیق امریکہ نے نہیں کی تو اس سے کیا مراد ہے؟ امریکہ نے روس کے ساتھ مل کریہ بات طے کرنے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی یک طرفہ طور پر اپنے نیٹو حلیفوں سے بھی بات کیے بغیر ہی بحر اسود میں بحری جنگی جہاز متعین کر دیے۔ علاوہ ازیں امریکہ نے رومانیہ میں فوجی متعین کر کے کہا کہ وہ ”قابل ذکر اور مستقل“ نہیں۔ اسی طرح امریکہ نے نیٹو سے ماوراہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ پولینڈ اور چیک ریپبلک میں ”ایرانی میزائل خطرہ“ کے پیش نظر میزائل شکن نظام نصب کیا جائیگا۔ جو ابھی تک نصب ہے اور درحقیقت روس کے خلاف ہی استعمال ہونے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اس خدشہ کو مد نظر رکھتے ہوئے روس نے ٹرمپ کی یورپی افواج کی یوکرین میں تعیناتی کی خواہش کو رد کر دیا ہے جس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاہدہ اپنی منزل تک پہنچ پائے گا یا نہیں جب کہ حال ہی میں ہونےوالی یوکرینی صدر اورامریکی صدر کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات تونہ صرف یہ کہ بے نتیجہ رہی بلکہ انتہائی ناخوشگوار رہی۔ اس تمام صورتحال کو دیکھنے کے بعد ابھی یہ نتیجہ اخذ کرناممکن نہیں کہ یوکرین کا مستقبل اور اس سے جڑے یورپی ممالک کی مستقبل کی پالیسی کیا ہو سکتی ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔