14 مارچ ، 2025
دشمنوں کے نرغے میں گِھرا پاکستان ترنوالہ بنتا توکب کا ہڑپ ہو چکا ہوتا۔ کوئی شک شبہ غلطی، تو 33 دہشتگردوں کے انجام سے دور ہو جانی چاہیے۔ سانحہ 9/11پر امریکی رَدعمل کا اصل نشانہ پاکستان، انتہائی بحرانی صورتحال میں نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا، ناممکن اہداف حاصل کئے۔
سانحہ 9/11پر جب جدید اسلحہ، گولہ بارود، جدید ٹیکنالوجی سے لیس اتحادی افواج افغانستان اُتریں تو وطنی اہلِ فکر و دانش کی نیندیں اُڑ گئیں۔ جنرل حمید گل کا قول زریں، ’’9/11بہانہ، افغانستان ٹھکانہ جبکہ پاکستان نشانہ ہے‘‘ ۔ازلی دشمن بھارت کا رالیں ٹپکانا بنتا تھا کہ پاکستان کو ٹھکانے لگانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا چاہتا تھا۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو Dismantle کرنے کا بنیادی خاکہ Blueprint بھی سامنے آ گیا۔ ایسے وقت جبکہ ایک غاصب حکمران، مخالفت میں ملکی سیاسی جماعتیں ہر انتہا پر جانے کو تیار، بھارت نے موقع غنیمت جانا اور سرحدی تناؤ بڑھا دیا۔
پاکستان نے اپنےTactical Nuclear Weapon (TNW) رکھنے کی تصدیق کی تو بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا بھرکس نکل گیا۔ 21ویں صدی کو امریکہ کے تابع فرماں رکھنے کیلئے 1988میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا عندیہ دیا۔ نادر موقع، ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے افغانستان پر تسلط جمانا، پاکستان کو سرنگوں رکھنا، روس چین کی حدود وقیود متعین کرنے اور تیل کے تمام ذخائر اپنے تصرف میں لانا ۔
بھارت کیساتھ پلک جھپکتے دفاعی معاہدے اور خطے کی مختارکاری سونپنے کا عمل ساتھ ہی شروع کر دیا۔پہلا قدم پاکستان کو DENUCLEARIZED کرنا، اُسی دورانیے میں بھارت کیساتھ سول نیوکلیئر ڈیل (2005ء) کہ بھارت جوہری صلاحیت بڑھائے۔ مشرف دور، دو کارناموں کی داد دینا ہو گی۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو ناقابل تسخیر بنایا، 15/16 جوہری ہتھیاروں کو 150تک پہنچایا۔ دوسرا کارنامہ، افغانستان میں امریکی پاؤں نہ جم پائے۔
دس بارہ سال پاکستان میں لاشوں کے انبار لگے مگر پاکستان کو افغانستان بنانے کا امریکہ بھارتی منصوبہ پٹ گیا۔ افواج ِپاکستان کو اس مد میں داد تو دوسری طرف وطن عزیز ستر سال سے ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ سے نبردآزما ہے۔صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ ذمہ دار اکلوتی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتیں بھی بری الذمہ نہیں کہ انکی ہوسِ اقتدار اسٹیبلشمنٹ سے بھی دو قدم آگے، سیاسی کھلواڑ میں ہمیشہ مہرہ بنیں۔
تضادستان میں مضبوط دفاع اور سیاسی عدم استحکام حسین امتزاج، دو متضاد رہنما اصول مستحکم ہیں۔ سرحدیں ناقابل تسخیر ضرور، ریاست دہائیوں سے اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے سے لاغر و قاصر ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان (1971) کا حوالہ اہم، بھارت کیساتھ چار ہزار کلومیٹر کی سرحد، اندر باہر دشمن، مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان کی فوج کیساتھ دفاع ناممکن تھا تو ہضم کرنا بھی ناممکن رہا۔ تمام ذمہ داران شیخ مجیب الرحمن مع خاندان، اندرا گاندھی، بھارتی پنجاب اور کئی صوبوں میں علیحدگی پسند تحریکیں اور اب شیخ حسینہ واجد سب کا عبرتناک انجام، ایک سبق موجود، بحیثیت پاکستانی حوصلہ افزائی کہ دشمن کھل کر اسکا کریڈٹ ہماری ISI کو دیتا ہے۔
وطنی بدنصیبی جب سیاسی جماعتوں کی اُمیدیں ریاست کمزور ہونے سے بندھ جائیں۔سیاسی جماعتوں سے شکایت ہی یہی کہ اسٹیبلشمنٹ دشمنی میں شعوری، لاشعوری طور پر ازلی دشمن کا آلہ کار بنیں۔ پختہ عقیدہ !وطنی سلامتی پر سب کچھ، جان قربان کہ ملک باقی تو سب کچھ باقی۔ قوی اُمید، کبھی نہ کبھی بے غرض دیدہ ور ضرور آئیگا جو ’’پُرعزم غاصبوں‘‘ کو ٹھکانے لگا کر ایک مستحکم نظام اور سیاسی استحکام دے گا۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کی زندہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے میں مثبت سبق اَزبر، دہشت گرد ازحد بزدل تھے کہ ٹرین کو انتہائی پسماندہ، دشوار گزار ویرانے میں روک کر معصوم نہتے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ خام خیالی اتنی کہ بذریعہ سوشل میڈیا پروپیگنڈا خوف و ہراس کی لہر دوڑے گی، بے چینی پھیلے گی۔ ایسے میں چند نام نہاد خیرخواہ دہشتگردوں کے گھناؤنے جرم کو JUSTIFY کرنے کیلئے بھاشن دیں گے۔ یقیناً مایوسی ہوگی کہ 33دہشتگرد جہنم واصل جبکہ یرغمال شہری کمال مہارت سے بچالئے گئے، سہولت کاروں اور بھیجنے والوں کیلئے بھی کڑا پیغام، ہماری سکیورٹی فورسز کا دور افتادہ ویرانے میں مانند بجلی کی کوند پہنچ جانا، انتہائی مہارت سے کامیابی کیساتھ پیچیدہ آپریشن یقیناً دشمنوں پر دھاک بٹھا چکا ہے۔ دہشت گردوں کا حشر نشر یہی کچھ نقش کر گیا کہ 33کا جتھہ چھوڑو 33سو لے آؤ، پکنک منانے نہیں جان گنوانے آئیں گے۔
مضبوط دفاع کا مستحکم رہنا اچھی خبر تو ریاست کا اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت میں ناکامی لمحہ فکریہ ہے۔ حرماں نصیبی! سیاسی جماعتوں کے جمہوری یا نیم جمہوری ادوار میں بھی دو متضاد حقیقتیں ساتھ ساتھ بدرجہ اتم موجود کہ وطنی عدم استحکام میں سب برابر کے شریک جرم ہیں۔ پریشان کن، طاقت کیساتھ مفاہمت اور سمجھوتا کرنے کیلئے سیاسی رہنما ہمہ وقت تیار ہیں۔ آج کی اسٹیبلشمنٹ کے آہنی مضبوط ہاتھ توہیں ہی تحریک انصاف کے مرہون منت۔ اقتدار میں PTI اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کی چھڑی رہی جبکہ سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ رکھا۔ کس منہ سے اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ رول کا رونا رو سکتی ہے۔ جعفر ایکسپریس پر PTI سوشل میڈیا کا رویہ غیر مناسب اور تکلیف دہ، اپنے پاؤں پرایک عدد مزید کلہاڑی چلا دی، عداوت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس سے پہلے لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثہ، سانحہ 9مئی اور دہشت گردی کے واقعات پر PTIسوشل میڈیا بھارتی میڈیا کا آلہ کار بنا رہا، بھارتی میڈیا کو گھر گھر پہنچایا۔
فوج سے بدلہ لینے کا کیا انوکھا طریقہ کہ جعفر ایکسپریس پر بغلیں بجائیں، پاکستان کو ٹوٹتا دیکھ رہے تھے۔ ماضی میں بھی کئی سیاسی جماعتیں ایسی حرکات و سکنات کی مرتکب رہیں۔ جنرل ضیاء الحق دور میں الذوالفقار اور PPPسیاستدانوں کی بھارتی را (RAW) یا امریکی CIA سے ساز باز کی کہانیاں طشت اَزبام رہیں۔ MQM وغیرہ ایک سے ایک بڑھ کر، آج تمام اپنے ماضی کے حقوقِ ملکیت سے برات کی طلبگار ہیں۔ سانحہ جعفر ایکسپریس پر PTI سوشل میڈیا نے پارٹی کی نہ صرف لٹیا ڈبو دی، سیاست مزید کمزور ہوئی۔ سب کے پیچھے ذاتی لڑائی ہے۔ کاش! سیاسی جماعتیں و مقتدرہ ملکی سالمیت کیلئے اپنی اپنی ذات کی لڑائی نہ لڑتے۔ خوش آئند! پاکستان نرم بادام نہیں، لوہے کا چنا ہے، سبق اَزبر کرنا ہوگا۔
شذرہ :ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل پر سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن پر بحث اختتام کے قریب ہے۔ جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت نظیر بنے گا یا آئین پاکستان کی حدود و قیود معیار رہیے گا۔ اگر خدانخواستہ سپریم کورٹ نے جسٹس منیر فیصلہ کو رہنما اصول بنایا تو تاریخ میں مقام بھی جسٹس منیر کیساتھ درج رہنا ہے۔ سپریم کورٹ کا امتحان! آئین کی ساکھ اور اپنے عدالتی نظام کی حفاظت کر پائے گی؟ فیصلے کی گھڑی سر پر آن کھڑی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔