یہ انٹرویو 9 اکتوبر 2022 کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈیبٹنگ سوسائٹی، آکسفورڈ یونین کے ایک سیشن کے دوران ہوا تھا۔
14 مارچ ، 2025
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف فیصلوں میں ”محدود“ کردار تھا اور اسٹیبلشمنٹ عدالتی کیسز پر اثر انداز ہوئی۔
یہ دعویٰ غلط ہے. ویڈیو کلپ کو ایڈیٹ کیا گیا ہے۔
8 مارچ کو 4 لاکھ 85 ہزار سبسکرائبرز رکھنے والے یوٹیوب اکاؤنٹ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جو مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویڈیو تھی۔
ویڈیو، جس کا کیپشن ”قاضی فائز عیسیٰ کا لندن میں چونکا دینے والا انٹرویو“ تھا، اس میں 54 سیکنڈ کا ایک کلپ شامل ہے جس میں قاضی فائز عیسیٰ سے مبینہ طور پر پوچھا جاتا ہے کہ آیا ان کی عمران خان کے ساتھ ”ذاتی دشمنی“ ہے۔ انٹرویو کرنے والی نے مزید اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ”آپ، عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (PTI) سے متعلق کیسز میں انصاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔“
ویڈیو کلپ میں قاضی فائز عیسیٰ کو مبینہ طور پریہ جواب دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ”دیکھیں پاکستان کا نظام تھوڑا مشکل ہے اگر آپ کو لگتا ہے کہ بطور ایک چیف جسٹس میرے پاس ہی تمام اختیارات تھے تو آپ غلط ہیں، ان سب مقدمات جن کی آپ بات کر رہی ہیں ان میں میرا کردار محدود تھا، ہاں کچھ ایسی طاقتیں جو بظاہر تو میڈیا پر نظر نہیں آتیں وہ بھی ان مقدمات میں اثر انداز ہوتی ہیں جن کا میں یہاں نام نہیں لے سکتا۔“
اس آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس ویڈیو کو 50 ہزارسے زائد مرتبہ دیکھا جاچکا ہے۔؎
وائرل ویڈیو کا ایک اسکرین شاٹ X (جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا) پر بھی شیئر کیا گیا جس کے اوپر یہ کیپشن لکھا ہوا تھا: ”پاکستان میں انصاف فوج کی مرضی سے ہوتا ہے، کچھ جرنیلوں کا حکم تھا کہ عمران خان کو دبا کر رکھنا ہے۔“
یہ دعویٰ غلط ہے، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس انٹرویو میں ایسی کوئی بات نہیں کی جس کے کلپس اور اسکرین شاٹس آن لائن شیئر کیے گئے ہیں۔
اصل انٹرویو 9 اکتوبر 2022 کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈیبٹنگ سوسائٹی آکسفورڈ یونین کے ایک سیشن کے دوران ہوا تھا، یہ بات اہم ہے کہ یہ انٹرویو اس وقت ریکارڈ کیا گیا تھا جب قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس نہیں بنے تھے، وہ ستمبر 2023 میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے، جبکہ یہ انٹرویو 2022 میں ریکارڈگیا تھا۔
جیو فیکٹ چیک نے آکسفورڈ یونین کے آفیشل یوٹیوب چینل پر پوسٹ کی گئی مکمل ایک گھنٹے کی ویڈیو کا جائزہ لیا، انٹرویو میں عمران خان سے متعلق کوئی سوالات یا بات چیت شامل نہیں ہے، اور نہ ہی قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے کردار کے محدود ہونے یا عدالتی کیسز میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر انداز ہونے کے حوالے سے کوئی دعویٰ کیا ہے۔
مکمل انٹرویو یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
اس کے علاوہ، وائرل ویڈیو کلپس میں بولے گئے الفاظ سابق جج کے ہونٹوں کی حرکت سے میل نہیں کھاتے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ویڈیو کو ایڈیٹ کیا گیا ہے۔ یہ ایک عام نشانی ہے کہ ویڈیو میں تبدیلی کی گئی ہے، جیسا کہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے ڈیپ فیک کی شناخت کے حوالے سے گائیڈ میں بتایا گیا ہے۔
ڈیپ فیک کی شناخت کرنے کے بارے میں مزید معلومات کے لیے، MIT کی گائیڈ یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے:
فیصلہ: آن لائن گردش کرنے والی ویڈیو 2022 کے قاضی فائز عیسیٰ کے انٹرویو کو غلط انداز میں پیش کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان کا کردار کیسز میں محدود تھا یا کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلوں پر اثر ڈالا۔ ویڈیو کلپ کو ناظرین کو گمراہ کرنے کے لیے ایڈیٹ کیا گیا ہے۔
ہمیں X (ٹوئٹر)GeoFactCheck @اور انسٹا گرام@geo_factcheck پر فالو کریں۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔