Time 15 مارچ ، 2025
بلاگ

دہشت گردی کے عذر خواہ!!

انسان بھی عجیب ہے اس کی سوچیں کبھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہیں تو کبھی پاتال کی گہرائیوں تک گر جاتی ہیں۔ افراد اور اقوام کا مقدر ان کی افتاد طبع اور مزاج پراستوار ہوتا ہے اگر افراد اور قوم، ہر معاملے کو جذباتیت یا انتہا پسندی سے دیکھیں توپھر وہ پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تضادستانیوں کی غالب اکثریت گڈ طالبان اور بیڈ طالبان پر یقین رکھا کرتی تھی ،آئے دن ہم لیکچر سنا کرتے تھے کہ گڈ طالبان تو پاکستان کے ہمدرد ہیں اور بیڈ طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس سے ذرا پہلے ہمیں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ افغانستان کے اندر جہادی طالبان بہت اچھے ہیں مگر ریاست پاکستان کے خلاف اٹھنے والے جہادی طالبان برے ہیں ۔

یہ حد بھی ہم نے دیکھی کہ طالبان کے عذر خواہوں (APOLOGISTS)کی تعداد زیادہ اور طالبان کو برا سمجھنے والوں کی تعداد کم ہوتی تھی ۔یہ عذر خواہ ہر طالبان حملے کے عذر بیان کیا کرتے تھے ،میریٹ پر دھماکہ ہوا تو عذر خواہوں نے کہا دراصل یہ حملہ اس لئے ہوا کہ وہاں امریکی بلیک واٹر والے میٹنگ کررہے تھے، طالبان اسکول تباہ کرتےتو کہا جاتا کہ طالبان تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ ا سکولوں کے اندر اُن پر حملہ آور فوج کا پڑاؤ ہوتا ہے اسلئے وہ سکولوں کو اڑاتے ہیں۔

 جب پاکستان کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور واضح ثبوت تھے کہ القاعدہ ، طالبان اور کچھ خفیہ ہاتھوں نے مل کر یہ افسوسناک کام کیا لیکن طالبان اور القاعدہ کے عذر خواہ یہ کہتے رہے کہ وہ تو اتنے بڑے مسلمان ہیں کہ عورت پر حملہ کر ہی نہیں سکتے۔ یہ سب عذر خواہی ذہنی خلجان اور اپنے نظریات کا اسیر ہونے کا نتیجہ تھی اب تو طالبان کے امیر نے اپنی کتاب میں خود ہی بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔

 آرمی پبلک اسکول کے واقعے سے پہلے عمران خان نےکبھی طالبان کے خلاف بات نہیں کی تھی بہت سے سیاستدان اور ہمارے قابل احترام صحافی صاحبان بھی عذر خواہی کےجرم میں شریک تھے۔ مقتدرہ کی قیادت بھی گو مگو کا شکار تھی اکثر جگہوں پر مقتدرہ طالبان کو ہلہ شیری دیا کرتی تھی۔ یہی اجتماعی غلطیاں، یہی فکری گو مگو اور یہی جھوٹی اور مصنوعی مصلحتیں دہشت گردی کی بڑھوتری کا باعث بنیں۔ شکر تو یہ ہے اب صحافت، مقتدرہ اور سیاست میں طالبان کے عذر خواہ کم ہوگئے ہیں۔

یہی عذر خواہی اور فکری تضاد بلوچستان کے معاملے میں نظر آ رہا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سیاسی حلقوں میں بلوچستان کی محرومیوں کے بارے میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا یہی وجہ ہے کہ دو قومی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے اور بلوچستان کو قومی فنانس کمیشن میں شامل زیادہ حصہ دینے اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے زیادہ صوبائی خود مختاری دینے کا متفقہ فیصلہ کیا۔

 مرکز کمزور ہوگیا اور صوبے مضبوط ہوگئے تاکہ فیڈریشن قائم رہ سکے۔ بلوچستان میں غائب افراد کا معاملہ ہو یا دہشت گردی کے واقعات، غالب اکثریت کا طالبان والے معاملے کی طرح عذر یہی تھا کہ یہ بلوچ محرومیوں کا ردعمل ہے وہ اتنے دبائے جا چکے ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن جب پنجابیوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارنے تک بات پہنچی تو عذر خواہوں کو مشکل پڑ گئی، اب ٹرین دہشت گردی کے بعد بلوچ تحریکوں کی عذرخواہی ممکن نہیں رہی جس طرح آرمی پبلک اسکول پرحملے نے رولز آف گیم تبدیل کر دیئے تھے اسی طرح ٹرین دہشت گردی سے بلوچستان کے حوالے سے بھی عذرخواہوں کیلئےکوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس واقعے نے بلوچستان کی محرومیوں اور اسکے ساتھ ہونے والی زیادتی سے مظلومیت کا جو تاثر پیدا ہوا تھا ،وہ اب ایک نئے ظالم کی شکل میں تبدیل ہو گیا ہے اور اب اس ظالم دہشت گرد کے خلاف ریاستی جنگ میں عوامی تائید شامل ہو جائیگی۔

باقی رہ گئی بات سیاست کی اور ہماری اجتماعی غلطیوں کی تو یہ بات طے کر لینی چاہئے کہ جس طرح دنیا نے زور زبردستی، دہشت گردی اور مارپیٹ کو حقوق اور سیاست کی جنگ سے خارج کر دیا ہے ہمیں بھی خارج کرنا ہو گا اب ہمیں لاڈپیار،مصلحت اور پسندیدگی کے حصار سے نکلنا ہوگا۔ 2014ء کے دھرنوں، مذہبی جذبات کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے اور حکومتوں کو ریاستی مداخلت کے ذریعے عدم استحکام کا شکار کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔

دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف دو رخی پالیسی اپنائی جاتی ہے ۔دہشت گردی کرنے والوں کو تو ان کی زبان میں ہی ریاست جواب دیتی ہے لیکن جو لوگ صرف حقوق اور اختیار کی بات کرتے ہیں انہیں سیاست میں جگہ فراہم کی جاتی ہے، بہت سی سیاسی جماعتیں اور افراد دہشت گردی کے ماحول میں اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو جاتے ہیں وہ خود پر ظلم کرنے والوں سے ہی پیار کرنے لگتے ہیں ،عرصہ دراز سے بلوچستان میں امن و امان کے حالات خراب ہیں غیر معمولی صورتحال میں الیکشن بھی درست نہیں ہوتے، نمائندگی بھی صحیح نہیں ہو رہی ۔منتخب نمائندے ہی بااعتبار اور بااختیار ہوں تودہشت گردی کو شکست دینے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

اتنی بڑی تعداد میں حملہ آوروں کا ایکشن ہماری انٹیلی جنس کی بہت بڑی ناکامی ہے ریاست نے کلیئرنس آپریشن جس سرعت اور احتیاط سے کیا ہے بلوچستان میں انٹیلی جنس نیٹ ورک اتنا ہی ناکام نظر آیا ہے جس طرح کراچی میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کو ختم کیا گیا تھا وہی طریقہ یہاں لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔

دنیا میں دہشت گردی ختم کرنے کا دیرپا طریقہ بہرحال سڑکوں کا جال بچھانا اور ترقی و خوشحالی پھیلانےکاہے۔ ریاست کو اپنے کم وسائل کے باوجود اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے باقی جہاں تک غیر ملکی سازشوں اور انکے ایجنٹوں کا تعلق ہے اس سےنمٹنا مقتدرہ بخوبی جانتی ہے ،ضرورت ہے کہ اس معاملہ کو اب پہلی ترجیح دی جائے اور دہشت گرد وں ،انکےٹھکانوں اور ان کے لیڈروں کو ٹھکانے لگایا جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔