Time 27 مارچ ، 2025
بلاگ

رودادِ ستم

یہ ایک نہتی لڑکی کی تصویر ہے جسے پولیس والوں نے گھیر رکھا ہے۔ پولیس اسے اپنی طرف گھسیٹ رہی ہے اور چند خواتین اس نہتی لڑکی کو پولیس کے ہاتھوں تضحیک سے بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔اس نہتی لڑکی کا نام سمی دین بلوچ ہے جسے 25مارچ کو سندھ ہائیکورٹ سے کراچی پولیس نے گرفتار کیا۔

ایک دن قبل سمی دین بلوچ کو کراچی پریس کلب کے باہر سے بلوچستان میں گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا۔ اگلے دن سندھ ہائیکورٹ نے سمی کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تو پولیس نے اسے ایم پی او کے تحت گرفتار کرلیا۔ یہ وہ قانون ہے جو پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں، 1960ء میں آرڈیننس کے ذریعہ نافذ کیا گیا۔ اس قانون کے ذریعہ کسی بھی پاکستانی شہری کو محض امن وامان کیلئے خطرہ قرار دیکر مخصوص مدت کیلئے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے نافذ کردہ اس قانون کو زیادہ تر سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ایم پی او نے وقتی طور پر جنرل ایوب خان کی حکومت کو تو مضبوط کیا لیکن ریاست کمزور ہوتی گئی جس کا نتیجہ 1971ء میں نکلا۔

1971ء کے بعد پاکستان میں کئی سیاسی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن جنرل ایوب خان کا نافذ کردہ ایم پی او اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ایم پی او کے تحت گرفتاری کے بعد سمی دین بلوچ کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگائی گئی اور پولیس وین میں بیٹھا کر جیل روانہ کردیا۔ سمی دین بلوچ کی ہتھکڑی کے ساتھ تصویر مجھے کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے اس شعر کے ساتھ بھیجی؎

لڑکیوں نے دوپٹہ کو پرچم کیا

چوڑیوں کی جگہ ہتھکڑی پہن لی

حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے سمی دین بلوچ اور عبدالوہاب بلوچ سمیت پانچ دیگر افراد کو امن وامان کیلئے خطرہ قرار دیکر ایک ماہ کیلئے جیل بھیج دیا ہے۔ بلوچستان حکومت سمی دین بلوچ کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیتی ہے جبکہ سمی نے 25 مارچ کو گرفتاری سے قبل واضح الفاظ میں کہا کہ وہ پرامن جدوجہد اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ میں سمی دین بلوچ کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ صرف دس سال کی تھی۔ 28 جون 2009ء کو اس کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو خضدار کے علاقے اور ناچ کے ایک سرکاری اسپتال سے گرفتار کیا گیا۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سرکاری ملازم تھے اور ان پر کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی انکے خلاف چارج شیٹ سامنے آئی ۔

والد کے لاپتہ ہونے پر سمی اور اسکی بہن مہلب نے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانی شروع کی۔انہی دنوں یہ بہنیں خاندان کے کچھ افراد کے ساتھ اسلام آباد آئیں اور نیشنل پریس کلب کے باہر اپنے والد کی تصویریں اٹھا کر بیٹھ گئیں ان بہنوں کا مطالبہ تھا کہ اگر ان کے والد پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جائے۔اس زمانے میں مرکز اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں تھی، میں نے کئی دفعہ جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت دیگر کئی لاپتہ افراد کا ذکر کیا۔حکومت ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتی تھی اور مسلم لیگ (ن) انکی بازیابی کا مطالبہ کرتی تھی۔ 

2014ء میں سمی دین بلوچ کی عمر 15 سال تھی اس نے ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کیا۔جب یہ عورتیں اور بچے اسلام آباد پہنچے تو ان کے پیروں میں چھالے پڑچکے تھے ماما قدیر اور سمی دین بلوچ نے کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کس طرح پنجاب میں جگہ جگہ انہیں ہراساں کیا گیا اور ڈرا دھمکا کر واپس بھیجنے کی کوشش ہوئی۔انکی روداد ستم اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے سن لی جب پروگرام کا پہلا وقفہ آیا تو مجھے وزیر اعظم کے پولیٹکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کا فون آیا انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ان مظلوموں کو کل ملنا چاہتے ہیں اگلے دن صبح گیارہ بجے ماما قدیر اور سمی دین بلوچ کی وزیراعظم سے ملاقات طے ہوگئی لیکن راتوں رات ان سب کو قابو کرکے ایئرپورٹ لیجایا گیا اور کراچی بھیج دیا گیا۔ 

سمی دین بلوچ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے کبھی کراچی اور کبھی کوئٹہ میں مسلسل اپنے والد کی بازیابی کا مطالبہ کرتی رہی۔ 2021ء میں سمی دین بلوچ لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ہمراہ ایک دفعہ پھر اسلام آباد آئی اس مرتبہ ان کے احتجاج میں آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت لاہور کے صحافی مدثر نارو کی والدہ بھی شامل ہوگئیں۔ سمی دین بلوچ ڈی چوک پر دھرنا دیکر بیٹھ گئی کچھ دن گزر گئے تو اس نے مجھے کہا کہ آپ وزیراعظم عمران خان سے ہماری ملاقات کروا دیں وہ مجھے میرے والد سے ضرور ملوا دیں گے۔ میں نے سمی سے کہا کہ عمران خان کچھ نہیں کرسکتے سمی نے اصرار کیا تو میں نے انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری سے اسکی بات کرائی۔ڈاکٹر صاحبہ نے سمی اور دیگر مظاہرین کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرا دی کچھ دن اور گزر گئے میڈیا پر سمی دین بلوچ اور انکی ساتھی خواتین کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا جانے لگا اب سمی نے فرمائش کی کہ انکی مریم نواز سے ملاقات کرائی جائے ہم نے ان کا پیغام مریم نواز تک پہنچایا تو وہ خود چل کر ڈی چوک پہنچ گئیں اور انہوں نےسمی دین بلوچ کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا۔ ڈی چوک پر یہ دھرنا بے نتیجہ رہا ڈاکٹر شیریں مزاری نے سمی کو تسلیاں دیکر واپس بھیج دیا ۔

2023ء میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انوارالحق کاکڑ نگران وزیر اعظم بن گئے ایک مرتبہ پھر تربت سے بلوچ خواتین اور بچوں کا ایک قافلہ ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اسلام آباد روانہ ہوا۔ سمی بھی اس قافلے میں شامل تھی یہ قافلہ اسلام آباد پہنچاتو پولیس نے عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ اگلے دن ہائیکورٹ نے انکی رہائی کا حکم دیا تو اسلام آباد پولیس نے ویمن پولیس اسٹیشن میں ان عورتوں اور بچوں کو مارپیٹ کر زبردستی واپس کوئٹہ بھیجنے کی کوشش کی۔ میرے خیال میں یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا اس واقعے نے پورے بلوچستان میں اضطراب پھیلایا اور پہلی دفعہ مجھے محسوس ہوا کہ سمی اسلام آباد سے مایوس ہو گئی ہے۔ جولائی 2024ء میں سمی کو گوادر میں گرفتار کیا گیا شائد اسے نہیں پتہ کہ سمی اور ماہ رنگ کو صدر آصف علی زرداری کی مداخلت پر رہا کیا گیا۔ 25 مارچ 2025ء کو اسے کراچی سے گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت خاموش رہی۔

 میں نے سمی کی رودادِ ستم آپ کے سامنے رکھ دی ہے اگر آپ کے خیال میں سمی دہشت گردوں کی ساتھی ہے تو اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلائیں کیونکہ اب تو عدالت سے سزا دلوانا کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر آپ کے پاس سمی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تو اسے یہ تو بتا دیں کہ اس کا باپ کہاں ہے؟ زندہ ہے یا مار دیا گیا؟ سمی کی والدہ کو یہ بتا دیں کہ وہ بیوہ ہو چکی ہے یا نہیں؟ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرور کریں لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ 2009ء سے آج تک جو سمی کے ساتھ ہوا وہ دہشت گردی ہے یا نہیں؟ سمی دین بلوچ کی روداد ایک فرد یا ایک خاندن کی نہیں بلکہ پاکستان میں آئین و قانون کی رودادِ ستم بن چکی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔