Time 29 مارچ ، 2025
بلاگ

عقاب اور شیرنی

تضادستان کا جنگل اس وقت دو واضح حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ایک طرف و یرانی اور مایوسی کے ڈیرے ہیں، شجر سوکھے ہوئے ہیں، کوئی پرندہ نظر نہیں آرہا۔ بلبلیں اور کوئلیں پرواز کر چکیں۔ نہ چرند نہ پرند۔ ہر طرف اندھیرا، روشنی کا کوئی درکھلا نظر نہیں آرہا۔ یہ تحریک انصاف کا ویرانہ ہے جس میں آہوں، کراہوں اور سسکیوں کی مدھم و مسلسل آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ 

جنگل کا دوسرا حصہ ہرا بھرا ہے پھول کھلے ہوئے نظر آتے ہیں، سبزے پر بہارآئی ہوئی ہے، تتلیاں پھولوں پر منڈلا رہی ہیں، عقاب اور شیرنی، دونوں جنگل کے نگہبان کے چمکتے اور منیر راہوں پر واری صدقے جا رہے ہیں، اس حکومتی حصے میں سب اچھا چل رہا ہے، اکانومی اور استحکام میں بہتری کے ترانے گائے جا رہے ہیں، جنگل کا شہباز اب اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ جنگل کو قرضوں سے نجات دلانے کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ 

اس جنگل میں بس ایک ہی مسئلہ نظر آرہا تھا کہ اندرونی کھینچا تانی کیسے بند کی جائے، شخصی تضاد کو اجتماعی مفاد میں کیسے بدلا جائے، ڈاروں کے کونج کو رمدے کے ستارے سے کیسے ملایا جائے، چیموں کے احد کو سیاسی وزیروں کی ناراضی سے کیسے روکا جائے، شاہوں کی تو قیر اور سرخ فیتے میں محاذ آرائی کا حل کیا نکالا جائے؟

 عقاب اور شیرنی دونوں کی بنتی نہیں دونوں ملتے ہی نہیں نونی شکرے آئے روز عقاب کی قابلیت پر سوال اٹھا کر جنگل پر پتھروں کی بارش کرتے ہیں اب یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے یاسیوں کو بری خبر ملنے والی ہے، حکومت کے عاصی ہوں یا خوشحالی کے آسی دونوں میں باہم مل کر چلنے کا عہد و پیمان ہو گیا ہے جنگل کے نگہبان نے فی الحال عقاب اور شیرنی کو ملا دیا ہے۔

نگہبان کیلئے عقاب بہت اہم ہےنگہبان کی جان گو عقاب میں نہیں مگر عقاب نگہبان کا پسندیدہ ہے اب تک نگہبان نے جو بھی انتخاب کیے ہیں ان میں سے عقاب سب سے قابل نکلا ہے اس نے دن رات محنت کر کے اپنی دھاک بٹھا دی ہے وہ اس قدر تیز ہے کہ اس کے سامنے سب کی اسپیڈ ماند پڑ گئی تھی وہ ایک جن کی طرح پلک جھپکنے میں پل اور بلڈنگز بنا رہا ہے کہ سب دنگ رہ جاتے ہیں۔

 دوسری طرف شیرنی نے اپنا سیاسی رنگ خوب جما کر رکھا ہے نونی کیمپ کی واحد کر شماتی شخصیت کی حیثیت سے اس نے مستقبل کی سیاست کے بارے میں سنہرے خواب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نگہبان کیلئے عقاب اہم ہے تو شیرنی کی بھی کم اہمیت نہیں وہ دونوں کو ساتھ چلانا چاہتا ہے کہ انصافی یاسیوں کا سیاسی مکو ٹھپ سکے۔ 

مگر یہ دونوں اکٹھے چلنے کی بات کو طرح دے جاتے تھے۔ اب کیا ہوا ہے کہ نگہبان نے براہ راست مداخلت کرکے بالآخر یہ ٹنٹامکا دیا ہے۔ جنگل کا کاروباراب چل پڑےگا اور مہکے ہوئے زرخیز جنگل میں کچھ نئے پھول مہک اٹھیں گے تحریک انصاف کے جس بھی یاسی سے ملیں وہ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی بات کرتا ہےیا امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کے جرنیلوں پر پابندیوں کا بار بار ذکر کرتا ہے جبکہ آسی اور عاصی حکومتی قصیدوں میں کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ 18 سال تک تحریک انصاف کے بانی کو اقتدار نہ دینے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے یا سی کہتے ہیں کہ یہ جعلی نظام ہے یہ چل ہی نہیں سکتا ۔

آسی کہتے ہیں2018 ء کا نظام بھی تو ایسا ہی تھا جب کوئی روڑہ کوڑا تحریک انصاف سے کہتا ہے کہ وہ اپنی جمہوری غلطیوں کا اعلان تو کرے عوام سے معافی تومانگے آئندہ ان غلطیوں کے نہ کرنے اور جمہوری اصولوں پرسختی سے کاربند رہنے کا وعدہ کرے تو کوئی جواب نہیں آتا کہ یہ کالا کوّا (بقلم خود)منڈیرپر بیٹھ کر بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ ملک میں استحکام کیلئے سیاسی مفاہمت انتہائی ضروری ہے تاکہ معاشی اور سیاسی استحکام مل کر دیرپا اور پائیدار خوشحالی کا راستہ ہموار کر یں ۔

یہ درست سہی کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کر کے ملک کی فضا کو مکدر کیا مگر کیا تحریک انصاف یہ نہیں سمجھتی کہ دہشت گردی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لینے کا یہی وقت ہے؟ بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دہشت گردی کیخلاف ہونیوالے سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں جاتی اور ملک کے جمہوری نظام میں غلطیوں کی نشاندہی کرتی اور اپنی مشکلات کو ختم کرنے اور اپنے اسیروں کی رہائی کی شرط عائد کرتی، اگر ریاست ان کی شرائط نہ مانتی تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے جمہوری حقوق نہیں ملتے تو ہم سیکورٹی کونسل کے جمہوری اور سیاسی ادارے میں غیر مشروط حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟

 عقاب فضاؤں میں اڑتا ہے شیرنی جنگل میں دھاڑتی ہے مگر دونوں میں غلط فہمیاں عروج پر تھیں ،چغل خوروں کی موج لگی ہوئی تھی عقاب کو کہا جاتا تھا آپ نے جو کمال کیے ہیں وہ شیرنی اڑاتی جارہی ہے اور شیرنی کو فیڈ کیا جاتا تھا کہ عقاب کچھ بھی نہیں اصل میں تو جنگل کو شیرنی نے ہی آکر سنوارا ہے۔

 نوکر شاہی اس لڑائی سے فائدہ اٹھا رہی تھی اب دیکھنا یہ ہوگا کہ صلح کتنی دیر پا ہوتی ہے؟ کالے کوّے کے خیال میں بحرانوں سے نکلنے کا واحد طریقہ مفاہمت ہے اور مفاہمت صرف اور صرف لچک سے ہو سکتی ہے ضد ہمیشہ لڑائی اور مخاصمت کو جنم دیتی ہے دنیا کے بڑے بڑے مثبت فیصلے لچک سے ہوئے ہیں پاکستان اور ہندوستان کی آزادی لچک کی بہت بڑی مثال ہے گاندھی متحد ہندوستان چاہتا تھا اسے وہ نہ مل سکا قائداعظم کشمیر اور حیدر آباد سمیت پاکستان چاہتے تھے انہیں کٹا پھٹا پاکستان ملا انگریز دونوں ملکوں کو اپنے زیر نگین رکھنا چاہتے تھےمگر انگریزوں کا یہ خواب پورا نہ ہوا۔ 

گویا لچک سے سب کو جزوی کا میابی ملی اور جزوی ناکامی- آج بھی حکومت اور تحریک انصاف برابر کی لچک کا مظاہرہ کریں تو مصالحت کی راہ آج بھی کھلی ہے۔ تحریک انصاف دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہے گویا وہ ٹوٹے دل سے سہی ان اسمبلیوں کو مان چکی ہے۔

 اسے انتخابات پر ہزارہااختلافات ہیں مگر وہ ان ایوانوں کا حلف لے چکی ہے، پارلیمانی کمیٹیوں کا حصہ ہے مراعات لے رہی ہے اگر وہ آئندہ انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کا وعدہ لے لے اور موجودہ سسٹم کو تسلیم کرلے تو اگلی حکومت اُن کی ہو گی۔ شاید اس طرح تضادستان دوبارہ جمہوری پٹری پر چڑھ جائے جنگل اور ویرانے ایک ہوجائیں ویرانے کی بربادی بھی زرخیزی میں بدل جائے۔

شیرنی کا بڑا پن تھا کہ وہ عقاب کے گھونسلے پر پہنچ گئی عقاب نے بھی خیر سگالی سے استقبال کیا یوں ایک ذیلی جنگل کہانی اختتام کو پہنچی ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس اہم سیاسی پیش رفت کے جنگل پر کیا اثرات پڑیں گے۔نگہبان تو لازماً خوش ہوگا کہ اسکے دو اہم اثاثے شیر و شکر ہو گئے ہیں ۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اسکے بعد بھی نونی شکروں کی عقاب پرسنگ زنی جاری رہے گی یا تھم جائے گی، کیا آنے والے دنوں میں عقاب اور نونی بوڑھے شیر کی ملاقات ہوگی اور کیا۔ صلح پسند شہباز اس میں کوئی کردار ادا کرے گا یا نہیں۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔