Time 12 اپریل ، 2025
بلاگ

بوڑھا شیر اور اژدھا

پہلوانوں کے گزشتہ دو سال کے جوڑ توڑ طے شدہ تھے، داؤ پیچ ضرور دکھائے گئے مگر وہ سب بھی نمائشی تھے۔ بوڑھے شیر اور اژدھے کا جوڑ مُلکھ کیلئے فیصلہ کن بھی ہو گا اور بوڑھے شیر کی آسان تر زندگی کیلئے ایک مشکل ترین چیلنج بھی۔

بلوچستان میں دہشت گردی کا عفریت اب اژدھا بن چکا ہے۔ ریاست، مقتدرہ، پنجاب اور عوام سب بھری محفلوں میں اس اژدھے سے نمٹنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ عام طور پر اس اژدھے سے نمٹنے کیلئے 3راستے اختیار کرنے کی تجاویز دی جاتی ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ اژدھے کا واحد علاج طاقت کا استعمال ہے اس کے پھیلے ہوئے پھن کو طاقت سے کچلنے کے سوا کوئی ر استہ نہیں۔

 دوسرا راستہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اژدھے کے پیدا ہونے کی وجوہات محرومیاں ہیں جن کا حل سیاسی ہے، طاقت کے استعمال سے اژدھے کی طاقت روز بروز بڑھ رہی ہے سیاست بروئے کار لائی جائے تو اژدھے کا پھن خود بخود سکڑ جائے گا اور وہ دو بارہ پہاڑوں میں جا چھپے گا۔

 تیسرا مجوزہ راستہ یہ ہے کہ ریاست اس مسئلے کو دوشاخہ حل کے ذریعے نمٹائے۔ ایک طرف اژدھے کی دہشت گردی سے لڑا جائے تو دوسری طرف جو لوگ دہشت گردی میں ملوث نہیں، سیاسی محرومیوں کا شکار ہیں انہیں سیاست میں موقع فراہم کیا جائے اور اژدھے سے الگ نمٹا جائے۔

 بظاہر بوڑھا شیر اور چھوٹا شیر دونوں اس مسئلے میں طاقت کے استعمال کی بجائے سیاست کو بروئے کار لانا بہتر سمجھتے ہیں اسی لئے بوڑھے شیر نے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک سے بھرپور سیاسی پروٹوکول کے ساتھ ملاقات کی ہے بوڑھے شیر کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ بوڑھے شیر نے اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک کو وزرائے اعلیٰ بنا کر اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی تھی مگر دونوں مرتبہ ان کی حکومت ختم کر دی گئی اور یوں معاملات بگڑ گئے۔

بوڑھے شیر کا تجربہ بجا، وہ مودی اور جنوبی ایشیا کے ہر لیڈر سے تجربے میں سینئر سہی مگر اس دفعہ چیلنج بہت بڑا ہے۔ اژدھے سے لڑنے والی ٹیم نہ ہم خیال ہے اور نہ اس میں اتفاق ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی، سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ، سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور بلوچستان کی صوبائی کابینہ کے اکثر اراکین سمجھتے ہیں کہ اژدھے کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے کھلی جنگ، ان کے بقول دہشت گردوں سے مذاکرات کا کیا مطلب اور پھر ان کا مطالبہ تو پاکستان کو توڑنا اور بلوچستان کو آزاد کرانا ہے۔ 

پنجابی اور پٹھان مزدوروں کو چن چن کر مارنے والوں سے مذاکرات نہیں صرف اور صرف جنگ ہونی چاہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ریاست کے طاقتور اداروں میں ابھی تک اوپر دیے گئے تینوں آپشنز پر غور ہو رہا ہے شائد اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا اور بوڑھے شیر کا اژدھے کے جنگل میں اترنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی اس مسئلے پر سیاست کی تھوڑی بہت گنجائش موجود ہے۔

اب اہم سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا بوڑھا شیر آگ برساتے اژدھے کو بے اثر کر سکے گا؟ ینگ ترکوں (YOUNG TURKS) کی اکثر تعداد اژدھے سے لڑنے پر یقین رکھتی ہے آدھی ریاست بھی اس پر تلی ہوئی ہے، بلوچستان کے مقتدر بھی اسی سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔ کیا بوڑھا شیر ان سب اتحادیوں سے الگ ہو کر امن اور سیاست کا پرچم بلند کر سکے گا

؟ مشکل لگتا ہے 2013ء اور 2025ء میں بہت فرق ہے، اژدھا اور اس کا فلسفہ مضبوط اور مزید توانا ہو چکا۔ ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل اژدھے کے سامنے اس قدر بے بس ہیں کہ وہ پنجابیوں اور پشتونوں کے مارے جانے کی مذمت تک نہیں کر سکتے۔ زمین ان امن پرستوں اور سیاست کاروں کے نیچے سے سرک چکی اب یا تو اژدھا ہے یا پھر اس کا سرتوڑ سکنے والی ظالمانہ قوت۔

 اقتدار کی راہداریوں سے یہ خبر ملتی رہی ہے کہ چھوٹا شیر ہر بار وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کو یہی کہتا ہے کہ بلوچستان میں مسئلے کے حل کا کوئی سیاسی راستہ تلاش کیا جائے۔ جو اباً وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ کس بات پر مذاکرات کریں وہ تو آزادی مانگتے ہیں یا طاقت اور دہشت گردی کے زور پر آزادی چھیننا چاہتے ہیں۔

 پنجاب کی رائے عامہ شروع میں بلوچستان کے سیاسی حل کو واحد طریقہ سمجھتی تھی بلوچستان کی محرومیوں اور سیاسی عدم تحفظ پر بھی بلوچ کاز کو عمومی حمایت حاصل تھی مگر جب بلوچستان سے پنجابیوں کی لاشیں آنا شروع ہوئیں تو ردعمل وہی ہو گیا جو ایم کیو ایم کی اس طرح کی کارروائیوں پر ہوتا تھا۔ اب اکثریتی رائے یہی ہے کہ اژدھے کا حل نہ کرنا کمزوری ہے کیا اژدھا ریاست سے مضبوط تر ہو گیا ہے؟ دوسری طرف یہ خوف بھی موجود ہے کہ کشت وخون سے کہیں بلوچستان بھی نیا بنگلہ دیش نہ بن جائے۔ اس وقت بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہے زرداری صاحب بیمار ہیں اس لئے انہوں نے تو بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے کوئی نیا راستہ تجویز نہیں کیا لیکن چیئرمین بلاول بھٹو کی تقریر سے یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو پہلے سیاسی طور پر حل کرنے کے حامی ہیں گویا مرکز میں بیٹھی دونوں جماعتیں سیاسی حل پر یقین رکھتی ہیں۔

 پی ٹی آئی آج کل چونکہ ہر بات مقتدرہ اور حکومت کے خلاف کرنے کی کوشش کرتی ہے اس لئے وہ بلوچستان میں آپریشن کی مخالف ہے لیکن ماضی میں وہ مقتدرہ، باپ پارٹی اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی پالیسی پر ہی کاربند رہی ہے۔ کچھ بھی ہو بوڑھا شیر، سوائے تحریک انصاف کے ساتھ جھگڑنے کے ہر تنازع سے بچتا رہا، آنکھیں موندے رکھیں یا سوتے سوتے ایک کھلی آنکھ سے حالات دیکھتا رہا ہے۔ 

بلوچستان کا مسئلہ وہ پہلا مشکل قدم ہے جس میں مقتدرہ سے تنازع ہو سکتا ہے وفاقی کابینہ میں اختلاف ہو سکتا ہے اور بلوچستان حکومت سے تو لازمی جھگڑا ہو گا وہ ڈاکٹر مالک سے نواز شریف کی ملاقات پر تالیاں نہیں بجائیں گے وہ مقتدرہ کے کان بھریں گے اور اپنی صفیں درست کر کے بوڑھے شیر کی کوششوں کو پیچھے سے ناکام بنائیں گے۔ دہشت گردی کا اژدھا بھی آسانی سے قابو میں نہیں آئے گا وہ پہلے ہی آئے روز کارروائیاں کر رہا ہے اور کچھ بڑا کر سکتا ہے اژدھےکو امن نہیں لڑائی سوٹ کرتی ہے اور اس کا کام سیاست نہیں انتشار سے بنے گا۔ بوڑھا شیر واقعی امتحان میں پڑ گیا ہے!!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔