25 اپریل ، 2025
عرصہ دراز سے لکھ رہا ہوں اور مختلف ٹی وی چینلز پر بیان کر چکا ہوں کہ بھارت، پاکستان کو بنجر دیکھنا چاہتا ہے، اب اس نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو ختم کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھی جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے، اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی کئی قراردادیں بھی ہیں مگر بھارت آج تک ان قراردادوں کو نظر انداز کرتا چلا آرہا ہے۔ چند برس پہلے مودی نے کشمیر کے سلسلے میں قوانین میں تبدیلی کر کے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا تھا کہ میں کسی کی نہیں مانتا۔
اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کیساتھ ہونے والی زیادتی کو کیوں برداشت کیا ہوا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ اسی طرح دوسرے عالمی ادارے عالمی بینک نے سندھ طاس معاہدے کے وقت پاکستان کے ساتھ ظلم کیا، پاکستان کے تین دریاؤں کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا حالانکہ عالمی قوانین کے تحت ان دریاؤں کا پانی آخر تک پہنچنا ضروری تھا۔
واضح رہے کہ یہ تینوں دریا ستلج، بیاس اور راوی ہماچل پردیش سے نکلتے ہیں اورجو دو دریا پاکستان کے حوالے کیےگئے، وہ تو ویسے ہی مقبوضہ علاقے سے آ رہے تھے۔ عالمی بینک نےبھارت سے نکلنے والے تینوں دریا بھارت کو دے دیئے اور ہمارے حوالے مقبوضہ علاقے کے دریا کر دیئے۔
علاوہ ازیں جب بھارت دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم اور دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم بنا رہا تھا، اس وقت ورلڈ بینک خاموش رہا، یہ خاموشی بھی ظلم کے مترادف تھی۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی بلاشبہ بھارتی جارحیت اور انتہا پسندی ہے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا۔
یہ الاقوامی سطح پر ضمانت یافتہ معاہدہ ہے، اگر بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرتا ہے تو پھر ان تمام معاہدوں پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے جو دیگر ممالک کیساتھ کئے گئے ۔یہ بھی یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو منسوخ یا معطل کرسکتا ہے؟ معاہدے کے تحت بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوئی قانونی اہلیت نہیں رکھتا۔ معاہدے کا آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے، جب بھارت اور پاکستان اس پرتحریری طور پر راضی ہوں،معاہدے میں یکطرفہ’’معطلی‘‘ کی کوئی شق ہی نہیں ہے۔
یہ ایک غیر معینہ مدت کا معاہدہ ہے اور اس کا مقصد کبھی بھی وقت کے ساتھ مخصوص یا واقعہ سے متعلق نہیں ہے، دونوں ممالک پاکستان اور بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کے یکساں طور پر پابند ہیں، اگر بھارت یکطرفہ طور پر معطلی یا منسوخی کیلئے کوئی جواز پیش کرکے معاہدہ ختم کرتا ہے تو اس کا واضح طور پر مطلب ہے کہ وہ پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ اگر بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی آبی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ یہ انوکھی خطرناک مثال بھی ہو گی، ۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق، بالا ملک (جیسے بھارت) زیریں ملک (جیسے پاکستان) کے پانی کو روکنے کا حق نہیں رکھتا، چاہے سندھ طاس معاہدہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر بھارت ایسا قدم اٹھاتا ہے تو یہ علاقائی سطح پر ایک نیا طرزِ عمل ہو گا، جو بین الاقوامی قانون میں ایک مثال کے طور پر استعمال ہوسکے گا، اسکا فائدہ چین اٹھا سکتا ہے، جو دریائے براہما پترا کے پانی کو روکنے کیلئے بھارتی طرزِ عمل کو بنیاد بنا سکتا ہے اورچین ایک بڑی طاقت کے طور پر اس صورتحال کو بغور دیکھ رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ 1960ءمیں طے پایا، جو ایک مضبوط اور دیرپا معاہدہ ہے، جس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی شق شامل نہیں، بھارت کی جانب سے یکطرفہ طورپر معاہدے کو معطل کرنا معاہدے کے علاوہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، یہ معاہدہ ماضی میں کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا، جو اسکی قانونی اور اخلاقی طاقت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
مودی بہت’’کھوچل‘‘ہے، اس نے پہلے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کا عالمی اسٹیٹس اقوام متحدہ کی پروا کے بغیر تبدیل کیا اور اب ورلڈ بینک کے معاہدے کے مطابق سندھ طاس معاہدہ بھی توڑ دیا۔
دراصل بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان میں زراعت بالکل نہ ہو، بھارت میں رہنے والے مسلمان بھی آج کل بہت تنگ ہیں کہ مودی سرکار انکے خلاف بھی قوانین لے آئی، مودی کو نکیل ڈالنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ شخص خطے کو آگ میں جھونک دے گا۔
بھارت کی حالیہ پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آج نہیں تو کل پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے پر کشیدگی ضرور ہو گی۔ اسلم گورداسپوری یاد آ گئے کہ
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
جسکے ایماں میں بھی انساں سے ہو نفرت شامل
کس طرح ایسے ستم گر سے گزارہ کر لیں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔