26 اپریل ، 2025
یہ ایک دو نہیں، سو پچاس نہیں، ہزار دو ہزار نہیں، پورے 67 ہزار پاکستانی حاجیوں کا مسئلہ ہے کہ وہ عزم حج کر چکے ہیں، اپنی جمع پونجی لگا کر حج کی آس میں بیٹھے ہیں مگر حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کا اس سال کچھ نہیں بننے والا،آپ کی ٹرین چھوٹ چکی ،آپ کو دیر ہو چکی، اب اگلے سال کا انتظار کریں۔
مسئلہ مگریہ ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر افرادجس عمر میں حج پر جانے کا ارادہ کرتے ہیں وہ عموماً زندگی کےآخری سال ہوتے ہیں، کون جانے کہ اگلے سال ان میں سے کون اس نیکی کو پاسکے گا یا نہیں ؟کون جانے ان میں سے کتنے اس نعمت سے سرفراز ہوئے بغیراگلے جہان رخصت ہو جائیں گے اور کسے علم ہے کہ ان 67 ہزار مایوس افراد میں سے کتنے اس قابل رہ جائیں گے کہ وہ حج کر سکیں،کتنے بیمار ہو جائیں گے اور کتنے ضعف کی وجہ سے یہ اہم عبادت کر سکیں گے بھی یا نہیں ۔
حاجیوں کی مایوسی کی وجہ حاجیوں کی اپنی غلطی ہے، ان کے ٹور آرگنائزر کی کوتاہی ہے ،حکومت پاکستان کی نااہلی ہے یا سعودی عرب کی جارحانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے ؟جو کچھ بھی ہے یہ 67ہزار سے زائد پاکستانیوں کی پاک خواہشات کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں تو ممالک اپنے ایک شہری کے مسئلہ کے حل کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں مگر ہماری حکومت اور سفارتخانے تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یوں پاکستانیوں کے جائز حقوق بھی مارے جاتے ہیں۔
وزیر حج نے تو یہ مسئلہ اٹھایا ہوگا کیا وزیر اعظم اور وزارت خارجہ نے سعودی حکام کو 67ہزار سے زائد حاجیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے آگاہ کیا ہے، معلومات کے مطابق ان عازمین حج کی خون پسینے کی کمائی سعودی خزانہ عامرہ میں جمع بھی کرائی جاچکی ہے مگر اب حکومت سعودی عرب کچھ سننے کو تیار نہیں ۔
سابق وفاقی وزیر حج چوہدری سالک حسین نے حج سستا کرنے، حرم کےقریب رہائشیں لینے اور رقوم پر وزارت حج کے منافع لینے کے اقدامات کو ختم کیا۔ انہوں نے مجھے اس مسئلے پر بریف کرتے ہوئے بتایا کہ حج کے انتظامات بہت جلد شروع ہو جاتے ہیں گزشتہ کئی برسوں سے سعودی حکومت پاکستان کو انتباہ کر رہی تھی کہ آپ عازمین حج کیلئے مخصوص رقوم ڈیڈلائن گزرنے کے بعد جمع کرواتے ہیں بقول چوہدری سالک حسین اس بار ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد آنے والی رقوم پر کوئی رعایت نہیں دی جا رہی اس لئے بار بار کہنے کے باوجود سعودی حکومت تاخیر سے جمع کروائی گئی رقوم کو اکاموڈیٹ نہیں کر رہی۔
چوہدری سالک حسین نے اس مسئلہ کی اندرونی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عازمین حج کی عادت بنی ہوئی ہے کہ وہ حج کے بارے میں حتمی فیصلہ عیدالفطر یعنی چھوٹی عید کے بعد کرتے ہیں رقوم بھی اسی وقت جمع کرواتے ہیں، آرگنائزر کے پاس چونکہ پہلے رقوم جمع ہی نہیں ہوتیں، اسے عازمین حج کی حتمی تعداد کا بھی علم نہیں ہوتا اسلئے وہ بھی رقوم جمع کروانے میں حیل وحجت کرتا ہے اور چونکہ ماضی میں ہر سال ڈیڈلائن گزرنے کے بعد پاکستانی حکومت سعودی حکومت سے رعایت لے لیتی تھی۔
سب کا خیال تھا کہ اس بار بھی رعایت مل جائیگی مگر اس بار سعودی حکومت سرےسے یہ رعایت دینے کو تیار نہیں کیونکہ وہ اپنے تمام انتظامات مکمل کرچکی ہے ۔ اب تاخیر سے رقوم جمع کروانے والوں کیلئے وہ انتظامات کرنے سے قاصر ہے ۔
موجودہ وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے اس مسئلے پر 67ہزار عازمین حج سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں امید دلائی ہے کہ وفاقی حکومت ابھی تک اس کوشش میں ہے کہ یہ عازمین حج ضروریہ فریضہ ادا کریں تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاملہ وزیر اعظم، وزیر خارجہ یا آرمی چیف نےکس سطح پر سعودی حکومت کے سامنےسے اٹھایا ہے، جب تک 67ہزار حاجیوں کایہ مدعا اس اعلیٰ سطح پر نہیں اٹھایا جاتا اسکے حل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
اس مسئلے کے متاثرہ حج آرگنائزر اکبر چودھری نے بتایا کہ حجاج اور آرگنائزر کو نہ صرف جذباتی صدمہ پہنچا ہے بلکہ انکے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے ، انہوں نے بتایا کہ آرگنائزر کو اس فیصلے کی صورت میں کروڑوں، اربوں روپے کا نقصان پہنچے گا ۔
اس سوال پر کہ کیا آپ کو ڈیڈلائن کا علم نہیں تھا ،رقوم وقت پر کیوں نہیں جمع کروائی گئیں؟ حج آرگنائزر نے جواب دیا کہ ہمیں معمول کے مطابق احکامات آتے رہے کوئی غیر معمولی حکم آیا نہ ہمیں اندازہ تھا کہ اس بار پاکستانی حکومت بے بس دکھائی دے گی، نہ ہمیں اندازہ تھا کہ سعودی حکومت اس قدر سختی دکھائے گی، آرگنائزر ان دنوں دفتروں کے چکر لگا رہے ہیںلیکن ان کی کہیںکوئی شنوائی نہیں ہو رہی ۔
اگر دنیا کے باقی ممالک اپنے ایک ایک شہری کی جیل میں خبر رکھتے ہیں، ان کے سفیر اپنے ہر شہری کے حقوق کیلئے لڑ مرتے ہیں تو سعودی عرب تو پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے ۔
وزیر خارجہ اور وزیر اعظم ان 67ہزار عازمین حج کیلئے سعودیہ سے اصرار کیوں نہیں کرتے ؟ذمہ دار ریاست اور ذمہ دار حکومت ہر شہری کی محافظ اور خادم ہوتی ہے، جب ریاست اپنے فرائض نبھاتی ہے تو ہر شہری ریاست کو ماں اور حکومت کو اپنا سہارا سمجھتا ہے اور اگر ریاست اور حکومت شہریوں کے حقوق کا خیال نہ رکھیں تو پھر اس ریاست سے شہری کا تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے کیا حکومت اس مسئلے پر جاگ کر اسے ترجیحاً حل کرے گی؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔