Time 26 اپریل ، 2025
بلاگ

کیا ابھینندن دوبارہ چائے پینے آئیں گے؟

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے ہندتوا کی سوچ کے ساتھ جو پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں انکی وجہ سے ان کے ملک کا چہرہ بری طرح مسخ ہوچکا ہے،  وہ انڈیا جو جمہوریت اور برداشت کیلئے مشہور تھا، غیرہندوؤں کیلئے جہنم بنا ہوا ہے ۔

 یہ سنی سنائی بات نہیں بلکہ اپوزشن جماعت کانگریس آئی جیسی جماعت نے گزشتہ انتخابات میں اسی بنیاد پر اپنی مہم چلائی اور بڑی حد تک عوام نے بھی اس کا ساتھ دے کر اس کے ووٹ کو بڑھایا۔ابھی چند روز قبل وقف املاک کے حوالے سے ایک بل منظور کیا گیا جسے مسلمان اپنی املاک کو ہڑپ کرنے کا حربہ قرار دے رہے ہیں ۔

 اس بل کی اپوزیشن جماعت کانگریس آئی نے بھی مخالفت کی لیکن مودی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسکے تناظر میں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ہندوستان کے اندر جذباتی مسلمان نوجوان بندوق اٹھانے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ اس وقت ان کی رہنمائی کیلئےابوالکلام آزاد اور قائداعظم جیسے عدم تشدد پر یقین رکھنے والے لیڈر موجود نہیں ۔

 جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے تو مودی نے اسے کشمیریوں کے لئے ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے، حریت کانفرنس کی زیادہ تر قیادت جیلوں میں ہے یا ہاؤس اریسٹ ہے،  پاکستان کیساتھ ان کی ہر طرح کی کمیونیکیشن کو بند کر دیا گیا ہے،  کچھ عرصہ قبل مودی نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اسے جبری طور پر صوبہ بنا دیا لیکن اس کے ساتھ ایک پورا روڈ میپ بھی دیا گیا جس کی رو سے ہندوؤں کو لاکر وہاں بسایا جارہا ہے تاکہ مسلمان اقلیت میں تبدیل ہوجائیں ، مقبوضہ کشمیر میں اس نے سات لاکھ فوج تعینات کی ہے جو تقریبا ًپاکستان کی پوری فوج کے برابر ہے ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان اور انڈیا ازلی دشمن ہیں اور ہر ایک سے دوسرے کے خلاف جو کچھ ہوسکتا ہے کرے گا لیکن تماشہ یہ ہے کہ ہندوستان ابھی تک پاکستانی مداخلت کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر سکا لیکن پاکستان کے پاس دیگر متعدد شواہد کے ساتھ ساتھ کلبھوشن یادیو کی صورت میں ایک بین ثبوت موجود ہے ۔

 انڈین انٹیلی جنس نے پاکستان میں اتنا اثرورسوخ بڑھا لیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی سپورٹ کے علاوہ اب انہوں نےپاکستان میں مختلف شخصیات کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور گزشتہ چند سال کے اندر پاکستان میں متعدد انڈیا مخالف جہادی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ، ہندوستان اس معاملے میں اتنا آگے بڑھا کہ اس نے کینیڈا جیسے ملک میں سکھ رہنما کو قتل کیا جس کی وجہ سے کینیڈا نے اپنے ملک سے اس کے سفیر کو بے دخل کیا لیکن سدھرنے کی بجائے نریندرمودی روز بروز پینترے بدل کر جارحیت کے نئے طریقے ایجاد کررہا ہے ۔

حالیہ پہلگام واقعے کو دیکھ لیجئے،  سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس پر وہاں کے لاکھوں بہادر شہری کب تک خاموش رہیں گے ۔ جبر حد سے بڑھ جائے تو وہ غیرتمند اقوام کی موت کا خوف ختم کر دیتا ہے ۔ جس طرح کہ ہم فلسطین میں دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے جنگ شہادت کیلئے شروع کی ۔ روزانہ درجنوں لوگ شہید ہورہے ہیں لیکن مزاحمت سے باز نہیں آتے ۔

 مقبوضہ کشمیر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو انکو غلام بنا دیا گیا ہے اور دوسری طرف باہر سے لوگوں کو لاکر ان کی زمینوں پر بسایا جارہا ہے ۔  اس تناظر میں وہ زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے لیکن پہلگام کے واقعے کے بارے میں تو پاکستان کا موقف ہے بلکہ خود انڈیا کے اندر بہت سارے لوگوں کا مؤقف ہے کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا ۔

 اس کی ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ وقف املاک بل سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ڈفیوز کرنا مقصود تھا ۔ دوسرا حملہ اس وقت کیا گیا جب امریکہ کے نائب صدر ہندوستان کے دورے پر تھے ۔ جب یہ واقعہ ہوا تو پاکستان نے اس کی مذمت کی (واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے سے بڑے واقعات کی انڈیا مذمت نہیں کرتا) لیکن انڈین میڈیا اور بی جے پی نے فوراً بغیر کسی تحقیق کے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے حالانکہ اب مقبوضہ کشمیر کے باسی اور انڈیا کے بعض ذی شعور لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب عسکریت پسند پاکستان سے آرہے تھے تو مقبوضہ کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوجی کہاں تھے ؟۔

 حقیقت جو بھی ہے لیکن جنونی مودی کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا ۔ وہ دورہ سعودی عرب مختصر کرکے انڈیا پہنچے اور سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد کرکے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا، پاکستانیوں کے ویزے کینسل کرنے کا اعلان کیا ۔ پاکستانی سفارتخانے کےاسٹاف میں کمی کردی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا، جس کا ورلڈبینک ثالث ہے اور انڈیا اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ایشو پریس کانفرنس میں تو موجود تھا لیکن اعلامیہ میں نہیں،اگلے روز پاکستان نے بھی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا اور اسی نوع کے اقدامات کے ذریعے انڈیا کو جواب دیا ، ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ پاکستان کے پاس بھی شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا آپشن موجود ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ انڈیا مزید کچھ کرے گا یا پھر انہی اقدامات پر اکتفا کرے گا؟ غالب رائے یہ ظاہر کی جارہی ہے کہ انہی پر اکتفا کرکے پاکستان کے اندر پراکسی وار کو تیز کرے گا، میزائل فائر کرنے کا امکان بھی کم ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ پاکستان بھی میزائل حملے کی صورت میں جواب دے گا اور ہمارے میزائل بھی غوری ، ابدالی اور غزنوی وغیرہ ہیں جنکے نام سن کر مودی جیسے لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں تو پھر کیا انڈیاثاسٹرائک کرئیگا ۔ میرے نزدیک اس کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ ابھینندن کے منہ میں ابھی تک پاکستان ائیرفورس کی چائے کا ذائقہ موجود ہے اور اتنی جلدی انڈین پائلٹ دوبارہ پاکستان میں Fantastic چائے نہیں پینا چاہیں گے ۔

ہوسکتا ہے اب کی بار وہ پانی کے ذریعے ہمیں چھیڑنے کی کوشش کرے کیونکہ انہیں علم ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت ہے اور پہلے سے سندھ کے پانی کے حوالے سے صوبوں کا ایک تنازع موجود ہے ۔ 

یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نےفوری طور پر یہ اعلان کیاکہ سی سی آئی میں اتفاق کے بغیر چھ نہروں پر کام نہیں ہوگا لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ بھرپور سفارتکاری کرے،  ڈار صاحب کچھ دنوں کیلئے وزارت خزانہ کو بھلا کر حقیقی معنوں میں وزیر خارجہ بن جائیں اور ورلڈبینک سے رجوع کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بھی ہندوستان کی آبی جارحیت کوبے نقاب کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔