30 اپریل ، 2025
پاک بھارت میں صحافت تاریخی طور پر ’’بیانات‘‘ کے گرد ہی گھومتی ہے امید تھی کہ جب پرنٹ میڈیا سے نکل کر الیکٹرانک میڈیا کی دوڑ میں داخل ہونگے تو شائد اس میں کچھ تبدیلی آئے مگر ’کراس میڈیا‘ کی وجہ سے ٹی وی پر بھی پرنٹ کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔
مدیر کا ادارہ ختم ہوا تو جیسے چیک اینڈ بیلنس ہی ختم ہو گیا اور میڈیا فری فار آل ہو گیا،دونوں ملکوں نے اپنے اپنے وقت میں نامور مدیر پیدا کیے اور خاص حد تک صحافت کا وقار اور اعتبار برقرار رکھا، اب ایک نئی دنیا ہےجہاں جھوٹ ہی دراصل سچ ہے اور جنگ میں تو پہلی موت ہی سچ کی ہوتی ہے ایسے میں کم ہی بات کسی دلیل اور منطق سے کرنا ممکن ہوتا ہے اور ہم یہ فیصلہ تاریخ پرچھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بھارت کے بڑے بڑے اخبارات اور رسائل کا جائزہ لیں تو ماضی کے دریچوں میں آپ کو اعلیٰ صحافتی معیار نظر آئے گا مگر پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب خود وہاں کے ایک انتہائی معتبر صحافی کلدیپ نائر نے کئی سال پہلے پاکستان کے ایک انگریزی اخبار میں بھارتی صحافت کے حوالے سے سخت مضمون لکھا جس میں انہوں نے وہاں کے ایک بڑے اخبار کے حوالے سے لکھا کہ وہاں خبریں پیسے دے کر چھاپی اورچھپائی جاتی ہیں۔
خیر ہمارے یہاں بھی اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں مگر اس لیول کے صحافی کا لکھنا بڑی بات تھی، میں آج کل کوشش کر رہا ہوں یہ جاننے کی کہ تقسیم ہند کے وقت جب لاکھوں لوگ مارے گئے صحافت کیسی ہو رہی تھی اور اداریہ، کالم اور تحقیقاتی رپورٹس چھاپی گئیں یا نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد1971ءکا واقعہ ایسا ہے جب ایسے ہی سوالات نے جنم لیا اور جہاں تک میری معلومات ہیں ڈاکٹر مہدی حسن کی ایک کتاب اس حوالے سے موجود ہے۔
کہتے ہیں برسوں پہلے بھارتی فلم ’’گرم ہوا‘‘ تقسیم کے حوالے سے ایک غیر جانبدار فلم تھی جس پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر رائے دینے سے پہلے فلم دیکھنا ضروری ہوتا ہے، تاہم میں یہ بات آج پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کے ’’جنگی ماحول‘‘ میں پاکستانی میڈیا میں آپ کو وہ ہیجانی کیفیت نظر نہیں آئے گی جو بھارت کے خاص طور پر ہندی میڈیا میں نظر آتی ہے۔
کبھی کبھی تو مجھے ان چینلز کو دیکھ کر بالی وڈ فلموں کا گمان ہوتا ہے کیا صحافتی اداکار نظر آتے ہیں کہ شاہ رخ اور سلمان خان، عامر خان پریشان ہو جائیں، یقینی طور پر ’’بالی وڈ‘‘ کے بہت سے لوگوں کی نظریں ان پر ہونگی، ٹی وی شوز دیکھیں تو چند ایک کو چھوڑ کر سب ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئے ہیں نہ حقائق کی پروا نہ تاریخ کا علم ،کیا اینکرز کیا فیلڈ رپورٹرز اور ایسے میں نیوز روم میں بیٹھے مہمان دراصل مہمان اداکار کا کام انجام دے رہے ہوتے ہیں خاص طور پر اگر مہمانوں میں کوئی پاکستانی صحافی اور دفاعی تجزیہ کار ہاتھ آ جائے، صحافتی زبان تو بہت دور کی بات عام زبان چاہے انگریزی میں ہو، ہندی میں یا اردو میں ایسی کےخود زبان شرما جائے کہ میں کس کے ہتھے چڑھ گئی ہوں۔
بین الاقوامی طور پر بھی صحافتی معیار مجموعی طور پر زوال پذیر ہے، عراقی جنگ ہو، صدام حسین کی پھانسی کی براہ راست کوریج ٹی وی پر یا حالیہ مہینوں میں غزہ کے اوپر مغربی میڈیا کی آزادی صحافت سب بے نقاب ہو گئے ہیں، ایسے ماحول میں پاک بھارت میں خاص طور پر پچھلے دو انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مسلسل کامیابی اور کانگریس کی مسلسل ناکامی نے انتہا پسندی کو مزید طاقت اور فروغ بخشا جس کے اثرات بھارتی میڈیا پر بھی نمایاں نظر آئے خاص طور پر کارگل جنگ کے بعد وہاں کی صحافت تقریباً یک طرفہ ہو گئی اور جو کچھ معتبر آوازیں تھیں وہ یا تو خوف زدہ ہو گئیں یا ریٹنگ کی دوڑ میں پیچھے ہو گئیں۔
ہمارے یہاں بھی بہت سے صحافتی اداکار آئے کچھ نےڈرامے کیے اور پھر پس منظر میں چلے گئے ان میں زیادہ تر وہ فنکار تھے جنہیں اوپر سے اتارا گیا تھا کوئی لائٹ ویٹ کوئی ہیوی ویٹ مگر بنیادی صحافت سے نابلد۔
اصل فرق جس نے دونوں ملکوں کی صحافت پر گہرااثر چھوڑا وہ بدلتے سیاسی رجحانات تھے، پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی ایک تاریخ رہی ہے جو کافی حد تک اب بھی موجود ہے مگر اس رجحان کو کبھی انتخابی پذیرائی حاصل نہ ہوئی اور جب بھی ہمیں یہ رجحان نظر آیا تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی اور کی طرف اشارہ گیا، اس سب کے باوجود تینوں بڑی جماعتوں میں آپ کو دائیں، بائیں اور لبرل نظر آئیں گے مگر انتہا پسندی کے رجحان کی حوصلہ شکنی بھی نظر آئیگی۔
بھارت میں معاملہ یکسر مختلف ہے وہاں اپنے وقت کی مضبوط ترین جماعت کانگریس اور گاندھی خاندان کا مسلسل زوال اور بی جے پی کی دوسری بار کامیابی چاہے ووٹ بینک کم ہی کیوں نہ ہوا ہو بھارت کے اندر انتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات کی عکاس ہے، ایسے ماحول میں بھارت کی صحافت میں 1990کے بعد بڑی تبدیلی آئی ہے مگر بدقسمتی سے ان میں مثبت پہلو کم اور منفی زیادہ نظر آتا ہے نئے آنے والوں کی اکثریت انتہا پسندی کی لہر میں بہہ گئی ہے اور زیادہ تر پروفیشنل اور معتبر صحافی یا تو اس دوڑ میں آئے ہی نہیں یا بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہمارے یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ ’’سچ‘‘ سے تو خیر ہم بھی بہت دور ہیں البتہ میڈیا نے یہاں وہ ہیجانی کیفیت پیدا نہیں کی جیسی پڑوسی ملک میں نظر آ رہی ہے، ہمارے یہاں سندھ طاس معاہدے پر اٹھائے جانے والے سوالات درست ہیں مگر یہ کہنا کہ ہم شملہ معاہدہ معطل کر دینگے یا تو معاہدہ سے لاعلمی ہے یا اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
اس تاریخی دستاویز کے نتیجے میں 90ہزار قیدی اور ہمیں اپنے علاقے واپس ملے تھے، وہ معاہدہ بقول پروفیسر حسن عسکری 1971کی جنگ کے تنازع کے پس منظر میں ہوا تھا جو 1976کے بعد سے آپریشنل نہیں ہے۔ بہتر ہے اس بات کو نہ چھیڑا جائے۔
پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ تقسیم ہند کے تناظر میں اعتماد کی کمی ہے، مگر بھارت میں اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے بعد نریندر مودی کے بیانیے نے بھارت کے سیکولر انڈیا کی ہی ساکھ کو خراب نہیں کیا بلکہ اب تو باپو یعنی مہاتما گاندھی کے قاتل کو ہیرو بنایا جا رہا ہے ایسے میں صحافت کیسے اپنے آپ کو بھارت میں ان رحجانات سے دور رکھ سکتی ہے لہٰذا مجموعی طور پر وہاں کا آزاد میڈیا اب یرغمال نظر آتا ہے، کاش ہماری حکومت جو خود ایسے ماحول میں یہاں کے میڈیا کے مثبت کردار کی تعریف کئے نہیں تھکتی، پیکا جیسے کالےقانون کو ختم کرنے پر تیار ہو جائے۔
بس ہماری ریاست اور سرکار کیلئے بہتر راستہ یہی ہے کہ ہم اسے محض دو ملکوں کے تناظر میں دیکھیں نظریہ کے تناظر میں نہ دیکھیں جس سے دونوں ملکوں کی اقلیتوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ جائے، بھارت انتہا پسندی کی انتہا کو چھو رہا ہے کیا سیاست، کیا صحافت یہاں تک کہ بالی وڈ اور کرکٹ بھی مودی بیانیہ کی لپیٹ میں ہیں، ساحر لدھیانوی نے بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے، بس اتنا سمجھ لیں کہ حقائق چھپانے سے حقیقت چھپ نہیں سکتی گو کہ کسی بھی جنگ یا جنگی ماحول میں پہلی موت ہی سچ کی ہوتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔