Time 12 مئی ، 2025
صحت و سائنس

ایک شخص نے 20 برسوں کے دوران خود کو 200 سانپوں سے کیوں ڈسوایا؟

ایک شخص نے 20 برسوں کے دوران خود کو 200 سانپوں سے کیوں ڈسوایا؟
اس شخص کے حوالے سے ایک تحقیق کے نتائج جاری ہوئے ہیں / اسکرین شاٹ

ٹم فریڈی ایسے فرد ہیں جن کو درجنوں بار مختلف سانپوں نے ڈسا اور ایسا حادثاتی طور پر نہیں ہوا بلکہ انہوں نے خود ایسا کیا۔

لگ بھگ 2 دہائیوں تک دنیا کے چند زہریلے ترین سانپوں نے ان کے بازؤں میں اپنے دانت گاڑے اور ایسا سائنس کے نام پر ہوا۔

اب ان کے اس انوکھے اور حیران کن تجربے کی بدولت ہزاروں زندگیوں کو بچانے میں مدد مل سکے گی۔

امریکی ریاست وسکنسن سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ ٹم فریڈی نے اپنی زندگی کے 20 سال سانپوں کا زہر اپنے جسم میں داخل کرتے ہوئے گزارے ہیں تاکہ زہر کے خلاف مدافعت پیدا ہوسکے۔

ان کے اس کام کی بدولت ایک بڑے عالمی طبی مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکے گی۔

ہر سال دنیا بھر میں 27 لاکھ افراد کو سانپ ڈس لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک لاکھ 20 ہزار اموات ہوتی ہیں جبکہ 4 لاکھ افراد زخمی ہوتے ہیں۔

محققین نے ٹم فریڈی کے خون میں 2 طاقتور اینٹی باڈیز کو دریافت کیا جن کو باہم ملا کر ایک دوا varespladib کو تیار کیا گیا۔

اس دوا کے تجربات کے دوران چوہوں کو سانپوں کی 19 اقسام کے زہر سے بچانے میں مدد ملی۔

یہ بہت اہم پیشرفت ہے کیونکہ اس وقت دستیاب تریاق عموماً سانپوں کی ایک یا 2 اقسام کے خلاف مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

ٹم فریڈی نے بتایا کہ 'مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں انسانیت کے لیے کچھ کیا جس سے ہزاروں میل دور رہنے والے افراد کی زندگیوں کو تحفظ ملے گا'۔

ٹم فریڈی نے اس تجربے کے آغاز 2000 کی دہائی کے شروع میں کیا تھا اور اکثر ان کے تہہ خانے میں 60 زہریلے سانپ موجود ہوتے تھے۔

2001 میں ان کا یہ تجربہ اس وقت لگ بھگ جان لیوا ثابت ہوا جب انہیں 2 کوبرا سانپوں نے ڈس لیا اور وہ 4 دن تک کوما میں رہے۔

اس تجربے کے بعد انہوں نے اپنا کام زیادہ احتیاط سے کرنا شروع کیا۔

ویکسین تیار کرنے والی کمپنی Centivax اور ٹم فریڈی پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ جیکب گلین ویل 2017 میں ٹم فریڈی سے ملے تھے۔

جیکب گلین ویل نے کولمبیا یونیورسٹی کے پیٹر کونگ کے ساتھ مل کر ٹم فریڈی پر تحقیق شروع کی اور خون میں موجود اینٹی باڈیز کو الگ کرکے ان کے تجربات چوہوں پر کیے۔

ایک اینٹی باڈی سے سانپوں کی 6 اقسام کے خلاف تحفظ ملا جبکہ دونوں کو باہم ملانے سے 13 اقسام کے زہر کے خلاف مکمل جبکہ 6 کے خلاف جزوی تحفظ ملا۔

ماہرین نے بتایا کہ ان اینٹی باڈیز سے سانپوں کی متعدد اقسام کے زہر کو ناکارہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت سانپ کے زہر کے تریاق تیار کرنے کے لیے گھوڑوں میں سانپ کا زہر انجیکٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان کا خون صاف کرکے اینٹی باڈیز کو حاصل کیا جاتا ہے، جو زہر کے خلاف کام کرتی ہیں۔

مگر اس طریقہ کار سے حاصل ہونے والے تریاق کی افادیت زیادہ نہیں ہوتی جبکہ ہر نسل کے سانپ کے لیے الگ تریاق کی ضرورت ہوتی ہے اور گھوڑوں کی اینٹی باڈیز کے استعمال سے مضر اثرات کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

مگر ٹم فریڈی کے خون میں موجود اینٹی باڈیز سے سانپوں کی متعدد اقسام کے زہر کے خلاف تحفظ ملتا ہے جبکہ مضر اثرات نہ ہونے کے برابر مرتب ہوتے ہیں۔

اب اگلے مرحلے میں محققین کی جانب سے آسٹریلیا میں سانپوں کے ڈسنے سے متاثر ہونے والے کتوں پر تجربات کیے جائیں گے۔

ٹم فریڈی اب سانپوں سے دور رہتے ہیں اور آخری بار انہوں نے ڈسنے کا تجربہ 2018 میں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سانپوں کی کمی محسوس کرتے ہیں مگر اب وہ اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلی سے خوش ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل سیل میں شائع ہوئے۔