بلاگ

بھارت میں ایک اور پاکستان کا جنم قریب!

وہ صرف پندرہ سال کا تھا۔ نام تھا عارف۔ علی گڑھ کے مضافاتی علاقے کا رہائشی، روز اپنے والد کے ساتھ مسجد میں اذان دینے جایا کرتا۔ مسجد چھوٹی سی تھی، پرانی اینٹوں والی۔ محلے کے مسلمان وہیں اکٹھے ہوتے، نماز پڑھتے، بچے وہیں قرآن سیکھتے۔ ایک دن اچانک گاؤں کے کچھ نوجوان ہجوم کی صورت آئے، مسجد کے دروازے پر زبردستی جھنڈا گاڑ دیا۔ شور ہوا، تو عارف کے والد نے صرف اتنا کہا: ’’یہ مسجد ہے، ِ خدا کا گھر۔ یہاں سیاسی نشان نہ لگاؤ۔‘‘ جواب میں پتھر اور آگ برسی، عارف کے والد کا سر پھٹ گیا۔ عارف نے آگے بڑھ کر انہیں بچایا، تو اس کا ہاتھ جل گیا… وہ ہاتھ جس سے وہ قرآن پڑھا کرتا تھا۔ اگلے دن خبر آئی، مسجد کو ’’شیو مندر‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور عارف؟ وہ اب دہلی کے ایک اسپتال میں جلے ہاتھ لیے خاموشی سے چھت کو تکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کی حالیہ جھڑپ میں بھارت کو وہ زخم ملے جو وہ چھپا تو رہا ہے، مگر اندر ہی اندر سسک رہا ہے۔ چھ لڑاکا طیاروں کی تباہی کے بعد، امریکہ کی مداخلت پر بھارت کو جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن بھارت نے اپنی شکست کا بدلہ دشمن ملک سے نہیں، بلکہ اپنے ہی مسلمان شہریوں سے لینا شروع کر دیاہے۔

اترپردیش کے ایک گاؤں میں 17سالہ سلمان مدرسے سے واپس آ رہا تھا، جیب میں کسی بچے کی رکھی ہوئی کاغذ کی پرچی تھی جس پر پاکستانی جھنڈا بنا تھا۔ راستے میں شدت پسندوں نے اُسے روکا، پاکستانی ایجنٹ کہہ کر مارا، جھنڈا زمین پر پھینکا، لوہے کی راڈوں سے اُس کے جسم کو چور کر دیا۔ پولیس آئی تو حملہ آوروں کو چھوڑ کر سلمان کو گرفتار کر لیا۔ آج سلمان اسپتال میں بے ہوش پڑا ہے۔یہ کہانی صرف عارف اور سلمان کی نہیں۔ یہ اس بھارت کی ہے، جہاں ایک نیا جنم ہونے والا ہے۔ ایک نئی پیدائش۔ وہ پیدائش، جس میں ایک اور پاکستان وجود میں آ سکتا ہے۔ وہ پاکستان جسے خود بھارت کے ہندو انتہا پسندوں نے اپنی نفرت، ظلم اور مذہبی تعصب سے جنم دینے کی تیاری شروع کر دی ہے۔

2020 میں دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں فسادات پھوٹے۔ ہندو انتہا پسند گروہوں نے مسلمانوں کی دکانیں، مکانات، مساجد نذرِ آتش کر دیں۔ 50 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس ظلم کی کئی ویڈیوز کو عالمی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا، مگر بھارتی حکومت خاموش رہی۔گجرات 2002، مظفر نگر 2013، آسام 2021… ان سب میں ایک قدر مشترک ہے: مسلمان لاشوں میں تبدیل کر دیئے گئے، ان کے گھروں کو ملبہ بنادیا گیا، اور انہیں ’’غدار‘‘ کہہ کر زمین چھین لی گئی۔ یہی وہ سلسلہ ہے جو آج ’’ہندوتوا‘‘ کے ایجنڈے کے تحت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔بھارت کی حالیہ مردم شماری میں بھی مسلمانوں کی آبادی کو کم کر کے پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبے میں نمائندگی انتہائی کم ہے۔ 2023میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 4.8فیصد ہے، جبکہ وہ کل آبادی کا تقریباً 14 فیصد ہیں۔

سوشل میڈیا پر روز ایسی ویڈیوز گردش کرتی ہیں، جن میں مسلمان طلبہ کو الگ بٹھایا جاتا ہے، خواتین کو برقع پہننے پر ہراساں کیا جاتا ہے، اور مساجد کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ بنگلور کی ایک یونیورسٹی میں طالبہ مسکان پر صرف اس لیے آوازے کَسے گئے کہ وہ حجاب میں تھی۔ اس نے نعرہ بلند کیا: ’اللہ اکبر‘ اور اگلے دن اسے انتہا پسند میڈیا نے ’’دہشت گرد‘‘بنا دیا۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک بہت بڑی بھول میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر، ان کی شناخت مٹا کر، وہ امن پا لے گا۔ مگر اسے یاد رکھنا ہوگا: یہی وہ عمل تھا، جس نے 1947میں پاکستان کو جنم دیا۔ تب بھی مسلمانوں کو کمتر سمجھا گیا، انکے مذہبی حقوق چھینے گئے، اور جب کوئی راستہ نہ بچا، تو قائد اعظم محمد علی جناح نے دوٹوک اعلان کیا:ہم الگ قوم ہیں، ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، ہماری تہذیب الگ ہے۔

آج بھارت ایک ایسی ہی نہج پر ہےجہاںایک اور پاکستان کے جنم کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اور اگر بھارتی قیادت نے وقت پر اس نفرت کو نہ روکا، تو یہ امید حقیقت میں بدل سکتی ہے۔کیا نریندر مودی جانتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو کس سمت میں دھکیل دیا ہے؟ کیا راہول گاندھی، اروند کیجریوال، اور دیگر رہنما اس آگ کو بجھانے کے بجائے، صرف اقتدار کے کھیل میں مصروف رہیں گے؟

ایک اور حقیقت:مسلمانوں کو الیکشن میں حصہ لینے، اپنا لیڈر بنانے، اپنی شناخت کے ساتھ جینے کا موقع نہ دیا جائے تو ردِعمل ضرور پیدا ہوتا ہے۔ اور یہی ردِعمل وہ لاوا بن سکتا ہے، جو بھارت کے خود ساختہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کو اندر سے چیر دے گا۔ لیکن یہاں سوال صرف بھارت کا نہیں۔ سوال ان عالمی طاقتوں کا بھی ہے، جو بھارت کو جمہوریت کا‘‘ مثالی نمونہ ’’کہہ کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور امریکہ کیا انہیں علی گڑھ، آسام یا کشمیر کے مسلمانوں کی آہیں سنائی نہیں دیتیں؟ یا ان کی سماعت صرف اس وقت کام کرتی ہے جب مظلوم فلسطینی، کشمیری یا میانمار کے روہنگیا مسلم نہ ہوں؟یہی سچ ہے۔ بھارت کے مسلمان اب صرف ’’شماریات‘‘ میں زندہ ہیں، حقیقت میں نہیں۔ ان کی مساجد چھینی جا رہی ہیں، ان کی زبان (اردو) کو مٹایا جا رہا ہے، ان کی تہذیب کو انتہا پسندی کی دھند میں دھکیلا جا رہا ہے۔ تو اے بھارت! اگر تم نے مسلمانوں کو مزید دھکیلا، مزید مارا، مزید چپ کروایا تو وہ دن دور نہیں جب تم واقعی ایک اور پاکستان کو جنم دے بیٹھو گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔