نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے ایک اہلکار نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ نئے ادارے کے قیام کے بعد پولیس کے پاس اب ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار نہیں رہا۔
22 مئی ، 2025
پنجاب پولیس کا دعویٰ ہے کہ جنوری میں قانون میں ترمیم کے بعد بھی اُن کے پاس پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) کے تحت سائبر کرائم کے مقدمات درج کرنے اور اُن کی تفتیش کرنے کا قانونی اختیار موجود ہے۔
پنجاب پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہیں رواں برس جنوری میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) (ترمیمی) بل 2025 قانون میں ترمیم کے بعد بھی اس (PECA) ایکٹ کے تحت سائبر کرائم کے مقدمات درج کرنے اور ان کی تفتیش کا قانونی اختیار حاصل ہے۔
لیکن ماہرین، ایک سرکاری اہلکار اور ایک عدالتی حکم کے مطابق ترمیم شدہ قانون کے تحت پولیس کے پاس اب پیکا کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار نہیں رہا۔
22 اپریل کو لاہور پولیس نے فیس بک، X (سابقہ ٹوئٹر) اور واٹس ایپ استعمال کرنے والے افراد کے خلاف 23 ایف آئی آرز درج کیں، جن میں ان پر ”نفرت انگیز تقریر“ پھیلانے اور فوج، ایک سینئر فوجی افسر اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو بدنام کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
یہ ایف آئی آرز پیکا کی دفعات 11 اور 20 کے تحت درج کی گئی تھیں۔
ان مقدمات کی تفصیلات یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پیکا کا قانون سب سے پہلے 2016 میں منظور کیا گیا تھا۔ رواں سال جنوری میں وفاقی حکومت نے اس میں وسیع پیمانے پر ترامیم کیں۔
ان ترامیم میں ایک اہم ترمیم یہ تھی کہ سائبر سے متعلق جرائم کی تحقیقات کا اختیار وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) سے واپس لے کر ایک نئے ادارے، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA)، کو مکمل طور پر منتقل کر دیا گیا۔
تاہم، پنجاب پولیس نے ترمیم شدہ قانون کی دفعہ 50A کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ جب تک نیا سائبر کرائم ادارہ، یعنی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی ، مکمل طور پر فعال نہیں ہو جاتا، اُس وقت تک ”ترمیم سے پہلے موجود تفتیشی ادارہ“ اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔
لہٰذا، پولیس کا اصرار ہے کہ ”جب تک این سی سی آئی اے مکمل طور پر فعال نہیں ہو جاتا، پولیس اور ایف آئی اے پر لازم ہے کہ وہ پیکا 2016 کے تحت مقدمات درج کریں اور ان کی تفتیش کریں، جیسا کہ اس قانون کی دفعہ 50A میں بیان کیا گیا ہے۔“
اس تشریح کو ایک سینئر NCCIA اہلکار، تین ماہرین، اور ایک عدالتی حکم نے مسترد کر دیا ہے۔ ان سب کا کہنا ہے کہ ترامیم کے بعد پولیس کا پیکا کے تحت اب کوئی دائرہ اختیار نہیں رہا۔
وفاقی حکومت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کی باضابطہ تشکیل 4 اپریل کو کی اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی تعینات کیا۔ دونوں نوٹیفیکیشنز جیو فیکٹ چیک کے پاس موجود ہیں۔
تاہم،NCCIA کے قیام کے باوجود، 22 اپریل کو لاہور پولیس نے پیکا کے تحت 23 ایف آئی آرز درج کیں۔
اسلام آباد میں NCCIA کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمود الحسن نے جیو فیکٹ چیک سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا: ”ابھی تو پولیس کے پاس یہ پاور ہی ختم ہو گئی ہے، پیکا کی سیکشن 30 کے تحت ،NCCIA کو دے دی گئی ہے، پولیس سے پاور ہی لے لی گئی ہے۔“
ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ فریحہ عزیرنے وضاحت کی کہ جب 2016 میں پیکا منظور ہوا تھا تو اس کی دفعہ 29 کے تحت ایف آئی اے کو واحد تفتیشی ادارہ مقرر کیا گیا تھا۔
انہوں نےمزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ”پولیس کو 2023 کی ترامیم کے ذریعے پیکا کی دفعہ 30 میں شامل کیا گیا تھا، لیکن انہیں کبھی بھی دفعہ 29 کے تحت تفتیشی ادارہ مقرر نہیں کیا گیا، پولیس کو صرف ایف آئی آر درج کرنے کے اختیارات دیے گئے تھے، تفتیش کے لیے مقدمات اب بھی ایف آئی اے کو بھیجے جاتے تھے، لیکن 2025 کی ترامیم [پیکا میں] نے پولیس کا کردار مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔“
فریحہ عزیز نے مزید کہا کہ فی الوقت ترامیم کے بعد پولیس کی جانب سے درج کی گئی کوئی بھی ایف آئی آر قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔
اس بات کی توثیق سپریم کورٹ کے وکیل صلاح الدین احمد نے بھی کی، جنہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترامیم کے بعد قانون کی دفعہ 50A صرف FIA کے تفتیشی اختیارات کو NCCIA کے قیام تک برقرار رکھتی ہے۔ قانون میں کہیں بھی پولیس کے سابقہ کردار کو برقرار رکھنے یا انہیں ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دینے کا ذکر نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ”لہٰذا یہ مؤقف اختیار کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ دفعہ 50A میں پولیس کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا گیا، اس لیے ایف آئی آر درج کرنے کا ان کا اختیار بھی خود بخود ختم ہو چکا ہے۔“
لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اسد جمال نے بھی پنجاب پولیس کے جانب سے پیکا کے مقدمات درج کرنے کے قانونی جواز پر سوال اٹھایا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ”میری رائے میں صرف این سی سی آئی اے کو ترمیم شدہ پیکا کے تحت جرائم کے دائرہ اختیار سنبھالنے کا اختیار حاصل ہے، پولیس اور [اب] FIA دونوں کو پیکا کے تحت دائرہ اختیار سنبھالنے سے روک دیا گیا ہے۔“
اس حقیقت کی توثیق ایک حالیہ عدالتی حکم میں بھی کی گئی ہے۔
گزشتہ ماہ کراچی میں ایک پولیس افسر نے پیکا کے تحت ایک فیس بک صارف کے خلاف مقدمہ درج کیا، جس پر الزام تھا کہ اُس نے صدرِ پاکستان کے بارے میں ”توہین آمیز“ تبصرے پوسٹ کیے۔
کراچی کے ضلع ملیر کے سول جج مظہر علی نے30 اپریل کو لکھے گئے اپنے ایک حکم میں قرار دیا کہ پولیس کو پیکا کے تحت اس مقدمے کی تفتیش کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا: ”مقامی پولیس کو اس مقدمے کی تفتیش کا اختیار حاصل نہیں ہے، کیونکہ پیکا کی دفعہ 29 کے مطابق صرف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو یہ اختیار حاصل ہے۔“ یہ مقدمہ بعد ازاں متعدد قانونی بنیادوں پر خارج کر دیا گیا۔
فیصلہ: پولیس کے پاس اب پیکا کے تحت مقدمات درج کرنے کا قانونی اختیار نہیں رہا۔ یہ اختیار اب صرف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے پاس ہے۔ ترامیم کے بعد پولیس کی جانب سے پیکا کے تحت درج کی گئی ایف آئی آرز دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرامeo_factcheck @پر فالو کریں۔ اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔