پاکستان

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل : غیر منتخب ڈپٹی کمشنرز کے وسیع اختیارات ، منتخب نمائندے نظرانداز

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل : غیر منتخب ڈپٹی کمشنرز کے  وسیع اختیارات ،  منتخب نمائندے نظرانداز
پنجاب اسمبلی کی عمارت، لاہور۔ — جیو ٹی وی/فائل

لاہور:  پنجاب میں پیش کیے گئے ایک نئے مقامی حکومت کے بل کے تحت غیر منتخب ڈپٹی کمشنرز (DCs) کو وسیع اختیارات دیے جا رہے ہیں جب کہ منتخب نمائندوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس پر پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں جمہوری عمل کے پسپائی کی تشویش بڑھ گئی ہے۔

یہ بل حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 7 مارچ کو پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، اور اس وقت ایک قائمہ کمیٹی میں زیرِ غور ہے، جہاں اسے نہ صرف اپوزیشن ارکان بلکہ حکمران جماعت کے کچھ اراکین کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بل پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 140-A کو کمزور کرتا ہے جو منتخب مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے اور اُنہیں اختیارات کی منتقلی کو لازمی قرار دیتا ہے۔

دوسری جانب بعض حلقوں کو اندیشہ ہے کہ اس قانون سازی کا اصل مقصد مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے طاقتور میئرز کے ابھرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔

بل میں کیا ہے؟

مجوزہ قانون مقامی حکومتوں کے لیے 5  سالہ مدت پر مشتمل دو سطحی نظام متعارف کراتا ہے: ایک تحصیل (سب ڈسٹرکٹ) کی سطح پر اور دوسرا یونین کونسل کی سطح پر۔

لاہور جیسے بڑے شہروں (جہاں آبادی 7 لاکھ سے زائد ہے) میں اعلیٰ سطح کو ”ٹاؤن کارپوریشن“ کہا جائے گا، ایسے شہر جہاں آبادی 2 لاکھ سے 7 لاکھ کے درمیان ہے، وہاں ”میونسپل کارپوریشنز“ قائم کی جائیں گی، جب کہ چھوٹے شہروں (جہاں آبادی 25 ہزار سے 2 لاکھ کے درمیان ہے) میں”میونسپل کمیٹیز“ تشکیل دی جائیں گی، دیہی علاقوں میں اعلیٰ سطح کی کونسل کو ”تحصیل کونسل“ کہا جائے گا۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل : غیر منتخب ڈپٹی کمشنرز کے  وسیع اختیارات ،  منتخب نمائندے نظرانداز

دوسری سطح کو ”یونین کونسلز“ کہا جائے گا، جو شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں طرزِ حکمرانی کی بنیادی اکائی ہوں گی۔

ووٹرز کو براہِ راست صرف یونین کونسل کے ارکان کو منتخب کرنے کی اجازت ہوگی،  ہر یونین کونسل میں 13 ارکان ہوں گے، جن میں 9 جنرل نشستیں اور 4 مخصوص نشستیں (خواتین، نوجوانوں، کسانوں اور غیر مسلموں کے لیے) شامل ہوں گی۔

یہ ارکان بعد ازاں بالائی سطحوں کے میئرز اور ڈپٹی میئرز کو بالواسطہ ووٹنگ کے ذریعے منتخب کریں گے۔

ڈپٹی کمشنر کا کردار

چونکہ نظام کی شروعات تحصیل سطح سے ہوتی ہے، اس لیے ڈپٹی کمشنرز- جو کہ نوآبادیاتی دور کا بیوروکریٹک عہدہ ہے، کو ضلع کی سطح پر مکمل اختیار حاصل ہو جاتا ہے، جہاں ان کے اختیارات کو چیک کرنے کے لیے کوئی منتخب نمائندہ موجود نہیں ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ مجوزہ بل کے تحت ڈپٹی کمشنرز کو خاصے وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ وہ نہ صرف الیکشن کمیشن کی مدد سے حلقہ بندیوں کے تعین میں کردار ادا کریں گے، بلکہ ایک نئی قائم کی جانے والی ”ضلع اتھارٹی“ کے سربراہ بھی ہوں گے،  یہ اتھارٹی ان 10 محکموں کے انتظام، آپریشن اور فنڈز کی تقسیم کی ذمہ دار ہوگی جو مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جا رہے ہیں،  ان محکموں میں شامل ہیں: صحت، تعلیم، سماجی بہبود، پاپولیشن کنٹرول، کھیل، ٹرانسپورٹ، سول ڈیفنس، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، فن و ثقافت، اور سیاحت۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل : غیر منتخب ڈپٹی کمشنرز کے  وسیع اختیارات ،  منتخب نمائندے نظرانداز

ڈپٹی کمشنرز”ڈسٹرکٹ میونسپل کوآرڈینیشن فورم“ کی صدارت بھی کریں گے،  یہ ایک ایسا فورم ہوگا جو مقامی حکومت کے افسران کے خلاف قانونی یا تادیبی کارروائی کی سفارش کر سکے گا۔

اگرچہ تکنیکی طور پر مقامی حکومتوں کو پانی، صفائی، سڑکوں، قبرستانوں اور دیگر خدمات کا اختیار حاصل ہوگا لیکن بل میں ایک اہم شرط شامل ہے: جو بھی صوبائی ادارہ ان خدمات کی فراہمی کا کام پہلے سے کر رہا ہے، وہ یہ اختیارات اپنے پاس رکھے گا، جب تک کہ صوبائی حکومت خود فیصلہ نہ کرے کہ یہ اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں۔

10 اپریل کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سرکاری حکام نے اعتراف کیا کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ”آپشنل“ ہے اور اس کا انحصار مکمل طور پر پنجاب حکومت کی مرضی پر ہے۔

حکومت اپنے دفاع میں کیا کہتی ہے؟

پنجاب کے وزیر برائے بلدیات، ذیشان رفیق نے اس خدشے کو مسترد کر دیا کہ مجوزہ نظامِ بلدیات منتخب نمائندوں کو ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کر دے گا۔

ذیشان رفیق نے لاہور میں ایک حالیہ تقریب کے دوران روزنامہ دی نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا: ”یہ ایک غلط فہمی ہے،نئی بلدیاتی حکومتیں مکمل طور پر خودمختار اور آزاد ادارے ہوں گی،  ان کے اپنے بجٹ ہوں گے، ڈپٹی کمشنر صرف ضلع کی سطح پر پنجاب حکومت کا نمائندہ ہوگا۔“

ذیشان رفیق نے مؤقف اختیار کیا کہ ”صوبائی حکومت کو ضلع کی سطح سے نیچے تک اختیارات منتقل کرنے پر سراہا جانا چاہیے، پنجاب حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ اس نے اختیارات کو اضلاع سے نچلی سطح- یعنی تحصیل اور یونین کونسل- تک منتقل کیا ہے۔“

تاہم صوبائی وزیر نے اعتراف کیا کہ بعض اہم سوالات اب بھی حل طلب ہیں، خاص طور پر یہ کہ کیا کچھ محکمے-جیسے صحت -کو واقعی نچلی سطح تک منتقل کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا:”جی ہاں، صحت، تعلیم جیسے محکمے ایسے ہیں جن کے بارے میں یہ بحث جاری ہے کہ انہیں کس حد تک نچلی سطح پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔“

انہوں نے مزید کہا:”لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس [نئے قانون کے نفاذ] کے بعد سب سے مضبوط نظامِ بلدیات قائم ہوگا اور عوام کو خدمات کی فراہمی میں بھی بہتری آئے گی۔“

پنجاب میں آخری بار بلدیاتی حکومتوں نے اپنی مدت 2021 میں مکمل کی تھی۔ اُس کے بعد سے صوبے میں نئی بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات نہیں کروائے گئے۔

ناقدین کیا کہتے ہیں؟

10 اپریل کو ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اپنے ہی رکنِ اسمبلی احمد اقبال چوہدری نے پارٹی کے مجوزہ بل پر تنقید کرتے ہوئے اسے آئین کے آرٹیکل 140-A کی خلاف ورزی قرار دیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ صوبائی حکومتیں پہلے ہی مقامی حکومتوں سے ان کے بنیادی اختیارات واپس لے چکی ہیں اور یہ اختیارات صوبائی اداروں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے چند ایسی صوبائی اتھارٹیز کی مثالیں دیں جو پہلے ہی مقامی حکومتوں کے دائرہ کار میں مداخلت کر رہی ہیں،  ان میں:پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی (جو عوامی ٹرانسپورٹ کی نگرانی کرتی ہے)،صاف پانی اتھارٹی (جو پانی کی فراہمی کو ریگولیٹ کرتی ہے)،شہرِ خموشاں اتھارٹی (جو قبرستانوں کا انتظام سنبھالتی ہے)،اور حال ہی میں قائم کی گئی پنجاب اسپیشل پلاننگ اتھارٹی (جو زمین کے استعمال سے متعلق منصوبہ بندی کرتی ہے)شامل ہیں،  احمد اقبال چوہدری کے مطابق، یہ تمام ادارے مقامی حکومتوں کے اختیارات پر قبضہ کر رہے ہیں، جس سے ان کی خودمختاری متاثر ہو رہی ہے۔

احمد اقبال چوہدری نے قانون میں شامل کیے گئے اُن الفاظ کی نشاندہی کی جن کے مطابق صوبائی ادارے مقامی حکومتوں کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا:”جو ہم کر رہے ہیں وہ غلط ہے، ہم مقامی حکومتوں سے اختیارات لے کر انہیں [صوبائی] اتھارٹیز کے پاس منتقل کر رہے ہیں۔“

ماہرین کے مطابق بل کی ایک اور متنازع شق یہ ہے کہ ہر ووٹر یونین کونسل کی سطح پر صرف ایک جنرل نشست کے لیے ووٹ ڈال سکے گا،  ان کا کہنا ہے کہ اس شرط کے باعث ہر سیاسی جماعت مؤثر طور پر صرف ایک امیدوار نامزد کر سکے گی، جس سے کسی بھی جماعت کے لیے اکثریت حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا اور مخلوط یا منقسم کونسلز کے امکانات میں اضافہ ہو جائے گا۔

وکیل اور بلدیاتی نظام کے ماہر مبین الدین قاضی نے کہا: ”یہ نظام سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات سے باہر دھکیل دیتا ہے،اگر ووٹر صرف ایک امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے تو پھر کوئی جماعت متعدد امیدواروں کے لیے مہم کیسے چلا سکتی ہے؟ یہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے مقصد کی نفی ہے۔“

مقامی حکومتوں کی مشیر اور دی سٹی میئرز فاؤنڈیشن کی فیلومیراج فہیم کا کہنا تھا کہ یہ بل اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہے۔

انہوں نے دی نیوز کو بتایا: ”یہ بل ایک مکمل انتشار ہے،اس کے پیچھے کوئی تحقیق موجود نہیں، پنجاب کو اپنی آبادی اور تیزی سے بڑھتی شہری آبادی کے مطابق ایک مضبوط نظام کی

ضرورت ہے، لیکن اس کے برعکس یہ نظام کمزور ہے، اسے اختیارات کی تقسیم اور ذمہ داریوں کے آپس میں ٹکراؤ نے مزید غیر مؤثر بنا دیا ہے۔“

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر تعلیم، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بل بااختیار میئرز کے ابھرنے کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، کیونکہ انہیں ممکنہ سیاسی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا،”ایسا لگتا ہے کہ [مسلم لیگ ن] کے اندر یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ یہ نظام مخالف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بااختیار میئرز کو جنم دے سکتا ہے، کیونکہ مضبوط میئرز اکثر قیادت کے دعوے دار بن جاتے ہیں اور جمہوری میدان میں مقابلہ بڑھا دیتے ہیں۔“

مزید خبریں :